Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل تو بند ہیں بلہگ خدا نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کردی ہے تو شاذ و نادر ہی وہ ایمان لائیں گے
یہ قول یہود کی طرف سے بطور ایک عذرلنگ کے بھی ہوسکتا ہے اور بطور اظہار تکبر کے بھی۔ پہلی صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ باتیں، جو پیغمبر پیش کرتے ہیں، ہمارے دل میں تو کسی طرح اترتی نہیں۔ اگر یہ خدا کی طرف سے ہیں تو خدا کے اختیار میں تو سب کچھ ہے۔ آخر وہ ہمارے دلوں کو ان باتوں کے لئے کھول کیوں نہیں دیتا۔ دوسری صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمارے دل ودماغ اس قسم کی لایعنی باتوں کے لئے نہیں بنے ہیں اس وجہ سے یہ کسی طرح بھی ہمارے دلوں میں نہیں دھنستی ہیں، اگر ان میں ذرا بھی معقولیت ہو تو معقول باتوں کے قبول کرنے کے معاملہ میں ہم سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید کے نظائر وشواہد ان دونوں ہی مفہوموں کی تائید میں موجود ہیں لیکن ہم یہاں دوسرے مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اس قول کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ بَلْ لَعَنَهُمُ اللّٰہُ بِكُفْرِهِمْ (بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کر دی) اس سے واضح تائید اسی مفہوم کی نکلتی ہے، یعنی وہ تو اپنے گھمنڈ اور غرور کے سبب سے یہ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر ﷺ کی باتیں ہی ایسی ہیں جو کسی معقول آدمی کے دل میں نہیں اتر سکتیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل خلاف ہے۔ یہ باتیں تو نہایت معقول اور دل نشین ہیں لیکن، ان لوگوں کے کفر اور ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کے سبب سے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کر دی ہے اس وجہ سے اب ان کے اندر ان معقول باتوں کو قبول کرنے کے لئے کوئی صلاحیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔
Top