Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 100
لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ هُمْ فِیْهَا لَا یَسْمَعُوْنَ
لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : وہاں زَفِيْرٌ : چیخ و پکار وَّهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يَسْمَعُوْنَ : (کچھ) نہ سن سکیں گے
اس اس میں ان پوجنے والوں کے چلانا ہوگا اور ان کے معبودوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ کچھ نہیں سنیں گے
اگر التباس نہ ہو تو انتشار ضمیر عیب نہی، بلکہ ایجاز ہے زفیر کے معنی آہ فریاد اور چیخنے چلانے کے ہیں اور ضمیر ھم پہلے جملے میں میرے نزدیک پجاریوں کے لئے ہے اور دوسرے جملے میں ان کے اصنام و احجار کے لئے۔ اگرچہ اس صورت میں بظاہر انتشار ضمیر ہے لیکن انتشار ضمیر، جیسا کہ ہم جگہ جگہ مثالوں کی روشنی میں واضح کرچکے ہیں، عیب صرف اس صورت میں ہے جب مرجع میں التباس کا اندیشہ ہو۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہو، مرجع کے تعین کے لئے واضح قرینہ موجود ہے، تو یہ عیب نہیں بلکہ ایجاز کے پہلو سے یہ کلام کا حسن ہے۔ یہاں التباس کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ پجاری تو جہنم میں چیختے چلاتے اور آہ و فریاد کرتے ہوں گے اور ان ٹھیس پتھروں کو، جن کو انہوں نے معبود بنا کر پوجا، خبر بھی نہ ہوگی کہ کوئی آہ و فریاد کر رہا ہے اور ان سے مدد کا طالب ہے۔ یہ مضمون قرآن میں دور سے مقامات میں بھی مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے کہ جہنمی مدد کے لئے فریاد کریں گے لیکن کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ ممکن ہے کسی کو یہ شبہ ہو کہ دوسرے ٹکڑے میں ضمیر اور فعل دونوں وہ استعمال ہوئے ہیں جو ذی عقل ہستیوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو ان کا استعمال اصنام و اجھار کے لئے کس طرح موزوں ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ضمیر اور فعل پجاریوں کے تصور کے اعتبار سے استعمال ہوئے ہیں۔ ان پتھروں کو وہ چونکہ اپنا فریاد رس اور معبود خیال کرتے تھے اس وجہ سے یہ اسلوب بیان اختیار فرمایا گیا۔ اس کی مثالیں کلام عرب اور قرآن مجید میں بہت ہیں۔
Top