Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 13
لَا تَرْكُضُوْا وَ ارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِیْهِ وَ مَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْئَلُوْنَ
لَا تَرْكُضُوْا : تم مت بھاگو وَارْجِعُوْٓا : اور لوٹ جاؤ اِلٰى : طرف مَآ : جو اُتْرِفْتُمْ : تم آسائش دئیے گئے فِيْهِ : اس میں وَمَسٰكِنِكُمْ : اور اپنے گھر (جمع) لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُسْئَلُوْنَ : تمہاری پوچھ گچھ ہو
ہم نے کہا، اب بھاگو ست، اپنے عیش کے سامانوں اور اپنی عیش گاہوں کی طرف پلٹو تاکہ تم سے پرسش ہو
ایک طنزیہ اسلوب یہ صورت حال کی تعبیر ہے یعنی خدا کی گرفت نے اپنی زبان حال سے ان سے کہا کہ اب کہاں بھاگتے ہوا اب بھاگو مت، بھاگنے کا وقت گزر گیا ! خدا کی بخشی ہوئی جن رفاہتیوں میں اب تک عیش کرتے اور اپنے جن محلوں اور ایوانوں میں بیٹھ کر خدا کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے رہے ہو، ان میں جائو تاکہ تمہاری اچھی طرح مزاج پرسی ہو ! لعلکم تسئلون یہاں طنز و تضحیک کے مفہوم میں ہے۔ طنزیوں کہتے ہیں کہ ٹھہرو، ابھی میں تمہاری مزاج پرسی کرتا ہے، ابھی تمہاری خبر لیتا ہوں۔ ابھی پوچھتا ہوں۔ قرآن کے دوسرے مواقع میں بھی یہ اسلوب استعمال ہوا ہے۔ مثلا ً آیت 8 تکاتر اور آیت 92 نحل میں الی ما اترفتم فیہ کے اسلوب بیا ن سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ رفاہیت و نعمت کی فراوانی تمہیں بخشی تو گئی خدا کی طر سے تاکہ تمہاری شکر گزاری کا امحتان ہو لیکن تم اس کو اپنے اب وجد کی میراث اور اپنے استحقاق ذاتی اور اپنی قابلیت کا کرشمہ سمجھے اور اس کے بل پر اسی خدا سے تم نے بغاوت کی جس کے فضل سے تمہیں یہ نعمتیں حاصل ہوئیں تو اب اس کا مزہ چکھو یہاں خطاب چونکہ امراء و اغنیاء سے ہے اور مساکن کا ذکر ان کے اسباب عیش و رفاہیت کے ذکر کے بعد ہے اس وجہ سے مساکن سے مراد انہی امراء کے ایوان و محل ہیں۔
Top