Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 14
قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
قَالُوْا : وہ کہنے لگے يٰوَيْلَنَآ : ہائے ہماری شامت اِنَّا كُنَّا : ہم بیشک تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم
انہوں نے واویلا کیا کہ ہائے ہماری بدبختی ! بیشک ہم ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے !
آیت 15-14 بعد از وقت اعتراف یعنی جب عذاب نے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تب ان کو ہوش آیا اور انہوں نے واویلا شروع کیا اور بول اٹھے کہ بیشک ہم خود ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے اور ہم نے یہ شامت خود بلائی، لفظ ظلم کے اس مفہوم کی طرف اوپر آیت 11 کے تحت ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ یہ اعتراف انہیں اس وجہ سے کرنا پڑا کہ اس عذاب سے پہلے خدا کے رسول نے انہیں اچھی طرح خبردار کردیا تھا لیکن وہ نہ صرف اندھے بہرے بنے رہے بلکہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا مطالبہ کرتے رہے۔ بالآخر جب وہ سر پر آدھمکا تو انہیں ماننا پڑا کہ سارا قصور ان کا اپنا ہے۔ فما ذالت تلک دعوئھم الایۃ دعویٰ کے معنی چیخ و پکار اور استغاثہ و فریاد کے ہیں۔ یہاں اس سے مرادان کی وہی چیخ و پکار ہے جس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہوا ہے۔ یعنی وہ اس طرح چیخ و پکار کرتے ہی رہ گئے، ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اس لئے کہ عذاب آجانے کے بعد چیخ پکار بےسود ہوتی ہے۔ چناچہ ہم نے ان کو کاٹی ہوئی گھاس اور بجھی ہوئی آگ کی مانند کردیا۔ کاٹی ہوئی گھاس اور بجھی ہوئی آگ کے استعارے میں یہ مضمون مضمر ہے کہ جس طرح گھاس کاٹ کر اس کے خشک انبار میں آگ لگا دی جائے اور وہ راکھ کا ڈھیر ہو کے رہ جائے اسی طرح ہم نے ان کو خاک اور راکھ بنا دیا۔ لفظ خمدین یہاں مستعارلہ کی رعایت سے آیا ہے اور یہ عربی کا معروف اسلوب ہے۔
Top