Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 16
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ
وَمَا خَلَقْنَا : اور ہم نے نہیں پیدا کیا السَّمَآءَ : آسمان وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان لٰعِبِيْنَ : کھیلتے ہوئے
اور ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشا کے طور پر نہیں بنایا ہے
آگے کا مضمون ………آیات 29-16 آگے اسی بات کی دلیل بیان ہوئی ہے جو اوپر مذکور ہوئی کہ اس دنیا میں قوموں کا جو محاسبہ ہوتا ہے اور آگے قیامت میں جو ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو خدا نے محض اپنا جی بہلانے کے لئے اس طرح کا کوئی تھیٹر نہیں بنایا ہے جس طرح کے تھیٹر دنیا کے بادشاہ اپنے جی بہلانے کے لئے بناتے ہیں بلکہ یہ اس نے اپنے فضل و رحمت اور حق و عدل کے ظہور کے لئے بنائی ہے۔ اس فضل و رحمت اور حق و عدل کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس میں اس کے بندے شتر بےمہار کی زندگی نہ گزاریں بلکہ خدا کے نظام حق و عدل کے پابند ہو کر زندگی گزاریں اور یہ یوں ہی چلتی نہ رہے بلکہ اس کے بعد ایک ایسا یوم الحساب بھی آئے جس میں لوگ اپنی کارکردگی کا صلہ پائیں جو اس دنیا کے خالق کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں اور وہ لوگ کیفر کردار کو پہنچیں جو اس میں دھاندلی مچائیں۔ اگر کسی ایسے یوم الحساب کے بغیر اسی طرح یہ دنیا چلتی رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا خالق کوئی کھلنڈرا ہے جس نے محض اپنی تفریح کے لئے یہ پہلا رچائی ہے اس کو اس کے خیر و شر اور عدل و ظلم سے کوئی بحث نہیں ہے۔ یہ خیال بالہداہت باطل اور خدا کی صفات عدل و رحم کے بالکل منافی ہے اس وجہ سے قیامت ناگزیر ہے۔ اسی سلسلہ میں شرکت کی تردید بھی فرمائی اس لئے کہ اگر شرک کی کوئی گنجائش باقی رہے تو اس صورت میں بھی یہ دنیا بازیچہ اطفال اور ایک کھیل تماشا بن کے رہ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایسے شرکاء و شفعاء کا وجود تسلیم کرلیا جائے جو خدا کے معاملات میں اتنے دخیل ہوں کہ وہ اپنے پجاریوں کو خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے خود ان کے اعمال کچھ ہی ہوں تو قیامت کا ہونا نہ ہونا دونوں یکساں ہوا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر یہ روز عدالت آیا تھا تو اس کے لئے کسی فکر و اہتمام کی ضرورت نہیں ہے۔ سفارشیوں کے ذریعہ سے اس عدالت سے چھوٹا جاسکتا ہے اور سفارش کے لئے ان کے یہ مزعومہ شرکاء و شفعاء ان کے نزدیک کافی ہیں۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمایئے۔ جزا اور سزا کے لازم ہونے کی دلیل اوپر جو بات جزا و سزا کے لازمی ہونے سے متعلق فرمائی گی ہے یہ اس کی دلیل بیان ہوئی ہے کہ اگر اس دنیا کے پیچھے کوئی روز جزا و سزا نہیں ہے، یہ یوں ہی چلتی آئی ہے اور یوں ہی ہمیشہ چلتی رہے گی۔ کوئی نیکی کرے یا بدی، ظلم کرے یا انصاف، اس کے خالق کو اس کے خیر و شر سے کوئی بحث نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے یہ محض اپنا جی بہلانے کے لئے ایک کھیل تماشا بنایا ہے، جب تک وہ چاہے گا اس سے جی بہلائے گا اور جب اکتا جائے گا اس کی بساط لپیٹ کر رکھ دے گا اور اپنی دلچسپی اور اوقات گزاری کے لئے کوئی نیا کھیل ایجاد کرلے گا۔ فرمایا کہ ہم نے اس آسمان و زمین اور ان کے مابین کی چیزوں کو اس طرح کے کسی کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے، یہ کارخانہ مکائنات اپنے وجود سے شاہد ہے کہ یہ ایک عادل و حکیم اور رحمان و رحیم کا بنایا ہوا کارخانہ ہے نہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے، نہ یہ دیوتائوں کی رزمگاہ ہے اور نہ یہ کسی بھگوان کی لیلا ہے بلکہ اس پر حکمت کارخانہ کی ایک ایک چیز شاہد ہے کہ اس کے خالق نے اس کو ایک عظیم مقصد وغایت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کے عدل و حکمت کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ ایک ایسا دن آئے، جس میں اس کا مقصد ظہور میں آئے۔
Top