Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 19
وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَۚ
وَ لَهٗ : اور اسی کے لیے مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین میں وَ مَنْ : اور جو عِنْدَهٗ : اس کے پاس لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : وہ تکبر (سرکشی) نہیں کرتے عَنْ : سے عِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت وَ : اور لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ : نہ وہ تھکتے ہیں
اور اسی کے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو اس کے پاس ہیں۔ وہ اس کی بندگی سے نہ سرتابی کرتے اور نہ تھکتے
آیت 20-19 شرک کی واہمہ کی تردید اوپر کی آیات میں جزا و سزا کے واجب ہونے پر صفات الٰہی سے استدلال تھا۔ اب یہ توحید کا بیان آ رہا ہے تاکہ یہ حقیقت واضح کردی جائے کہ اگر کسی نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ اپنے شرکاء و شفعاء کی سفارش سے خدا کی پکڑ اور جزا و سزا سے بچ جائے گا تو یہ محض اس کا وہم ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب خدا ہی کی مخلوق اور اسی کے مملوک ہیں کسی کو خدا کے ہاں کوئی اختیار و اقتدار حاصل نہیں ہے۔ فرشوں کا حال ومن عندہ لایستکبرون عن عبادتہ ولا یستحسرون، من عندہ سے مراد خدا کے مقرب ملائکہ ہیں۔ فرمایا کہ وہ بھی اسی زمرے میں داخل ہیں۔ باہمہ قرب و شرف ان کا حال یہ ہے کہ نہ وہ اس کی عبادت سے کبھی سرتابی کرتے، نہ کھبی اس سے تھکتے یہ مشرکین کے اس وہم کی تردید ہے کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں فرض کر کے ان کی عبادت کرتے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ ان کو خدا کے ہاں بڑا مرتبہ و مقام حاصل ہے۔ جو بات چاہیں اپنے باپ سے منوا لیتی ہیں اور خدا ان کی ناز برداری میں ان کی ہر خواہش کی لازماً تعمیل کرتا ہے۔ وہ اپنی دنیا کی نعمتوں کو بھی انہی کا عطیہ سمجھتے اور آخرت کے باب میں بھی ان کا خیال تھا کہ اگر بالفرض مرنے کے بعد اٹھنا ہی ہوا تو ان کی بدولت وہاں بھی ان کو بڑا درجہ حاصل ہوگا۔ فرمایا کہ تم تو ان کے بل پر خدا سے اکڑتے ہو لیکن خود ان کا حال یہ ہے کہ نہ ہو کبھی خدا کی بندگی سے سرتابی کرتے اور نہ کبھی اس کام میں وہ کوئی تکان محسوس کرتے، وہ شب و روز خدا کی تسبیح و تہلیل میں سرگرم رہتے ہیں، ایک لمحہ کے لئے بھی اس میں توقف نہیں کرتے۔
Top