Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 34
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡئِنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنَا : ہم نے نہیں کیا لِبَشَرٍ : کہ بشر کے لیے مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل الْخُلْدَ : ہمیشہ رہنا اَفَا۟ئِنْ : کیا پس اگر مِّتَّ : آپ نے انتقال کرلیا فَهُمُ : پس وہ الْخٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کو ہمیشہ کی زندگی نہیں بخشی تو کیا اگر تم مر جانے والے ہو تو یہ ہمیشہ رہین والے ہیں !
آگے کا مضمون ……آیات 47-34 پیچھے آیت 8 پر ایک نظر ڈال لیجیے بات یہاں سے چلی تھی کہ مخالفین اس بنیاد پر آنحضرت ﷺ کا مذاق اڑا رہے تھے کہ آپ رسول کس طرح ہو سکتے ہیں جب کہ آپ بھی اسی طرح کے ایک بشر ہیں جس طرح کے عام بشر ہتے ہیں اور مال و جاہ کے اعتبار سے بھی آپ کو کوئی امتیاز حاصل نہیں پھر وہ یہ کہتے کہ اگر ہم سے اپنی رسالت تسلیم کرانی ہے تو آپ کوئی ایسی نشانی دکھائیں جو یہ ثابت کر دے کہ فی الواقع آپ کی بات سچی ہے اوپر کی آیات میں نشانیوں کے مطالبہ کا جاب دیا۔ اب آگ کی آیات میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ تم ان لوگوں کے استہزا کی پروا نہ کرو۔ اب وقت آ رہا ہے کہ یہ تمہاری ہر بات کی صداقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور ان کی یہ ساری اکڑخوں ختم ہوجائے گی۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ آیت 35-34 رسول کی بشیرت پر اعتراض کرنے والوں کو جواب آیت 3 میں کفار کا آنحضرت ﷺ پر یہ اعتراض گزر چکا ہے کہ ھل ھذا الا بشر مثلکم (یہ تو بس تمہارے ہی جیسے ایک بشر ہیں) یعنی جس طرح تم کھاتے پیتے ہو اسی طرح یہ بھی کھاتے یتے ہیں اور جس طرح تم ایک دن مر جائو گے اسی طرح یہ بھی ایک دن مر جائیں گے تو اپنی ہی جیسے ایک انسان کو نبی و رسول ماننے کے کیا معنی ؟ وہاں اس اعتراض کا جواب ایک دوسرے پہلے سے دیا ہے۔ یہاں اسی اعتراض سے پھر تعرض فرمایا اور اعتراض کرنے والوں کے مافی الذہن پر ایک اور پہلو سے ضرب لگائی۔ فرمایا کہ نبی اور رسول ہونے کے لئے زندہ جاوید ہونا ضروری نہیں۔ اگر تم کو موت آتی ہے تو تم سے پہلے ہر بشر کو خواہ نبی ہو یا غیر نبی، یہ آئی ہے اور ہر ایک کو آئے گی۔ تم سے پہلے کوئی بھی ایسا نہیں گزرا ہے جو اس چیز سے محفوظ رہا ہو۔ اگر تم ایک دن وفات پا ئو گے تو یہ بھی ہمیشہ زندہ رہنے والے نہیں ہیں۔ یہ بھی لازماً ایک دن اس موت سے دوچار ہوں گے۔ یہ موت تو لازمہ بشریت ہے۔ اس کا مزا تو ہر ایک کو چکھنا ہے۔ مطلب یہ کہ ان کے اس اعتراض میں اگر کوئی وزن ہوسکتا تھا تو اس صورت میں جب یہ زندگی جاوداں لے کے آئے ہوتے۔ اس وقت تو یہ کہہ سکتے تھے کہ بھلا ہم حیات ابدی کے مالک ایک فانی انسان کو کس طرح رسول مان لیں لیکن جب یہ بھی فانی ہیں تو آخر رسول ان کو کیوں غیر فانی مطلوب ہے ! رسول کے لئے نہ مافوق بشر ہونا ضروری ہے نہ مال دار وقبلوکم بالشروالخیر فتنۃ ط والینا ترجعون یہ اسی اعتراض کے ایک دوسرے پہلو کا جواب ہے کفار جس طرح آپ کے بشر ہونے پر معترض تھے اسی طرح وہ یہ بھی کہتے کہ اگر خدا کو کسی بشر ہی کو رسول بنانا ہوتا تو وہ مکہ یا طائف کے کسی رئیس کو رسول بناتا ان کو کیوں رسول بناتا جو مال و جاہ سے محروم ایک غریب آدمی ہیں۔ اس طعن کا جواب قرآن نے مختلف پہلوئوں سے جگہ جگہ دیا ہے۔ یہاں بھی اسی کا جواب ایک نئے انداز سے دیا ہے۔ فرمایا کہ رسول کے لئے جس طرح مافوق بشر ہونا ضروری نہیں اسی طرح اس کا صاحب مال و جائیداد ہونا بھیضروری نہیں ہے۔ اس دنیا میں امارت نہ کسی کے مقرب الٰہی ہونے کی دلیل ہے، نہ غربت اس کے حقیر ہونے کی دلیل ہے اس دنیا میں غربت و امارت دکھ اور سکھ رنج اور راحت صرف امتحان کے لئے ہے۔ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا اور ان کے کھرے کھوٹے میں امتیاز فرماتا ہے جب وہ کیل کو مال و جاہ دیتا ہے تو اس کے شکر کا امحتان کرتا ہے اور جب فقر و غربت دیتا ہے تو اس کے صبر کا امتحان کرتا ہے۔ پھر سب کی واپسی خدا ہی کی طرف ہوگی اور وہ فیصلہ فرمائے گا کہ کس نے کمایا اور کس نے کھویا ؟ مال و دولت پا کر جو لوگ اپنے آپ کو خدا کا منظور نظر سمجھ بیٹھتے ہیں یہاں تک کہ نبوت و رسالت کو بھی اپنا اجارہ خیال کرنے لگتے ہیں، وہ بالکل برخود غلط ہیں۔ آیت میں لفظ فتنۃ کو زمخشری نے تاکید فعل کے مفہوم میں لیا ہے لیکن میرے نزدیک یہ مفعول لہ ہے۔ میں نے ترجمہ میں اس کا لحاظ رکھا ہے۔ اس لفظ کی تحقیق سورة طہ کی تفسیر میں بیان ہوچکی ہے۔
Top