Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 44
بَلْ مَتَّعْنَا هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى طَالَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ١ؕ اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا١ؕ اَفَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ
بَلْ : بلکہ مَتَّعْنَا : ہم نے سازوسامان دیا هٰٓؤُلَآءِ : ان کو وَاٰبَآءَهُمْ : اور ان کے باپ دادا حَتّٰى : یہانتک کہ طَالَ : دراز ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان پر۔ کی الْعُمُرُ : عمر اَفَلَا يَرَوْنَ : کیا پس وہ نہیں دیکھتے اَنَّا نَاْتِي : کہ ہم آرہے ہیں الْاَرْضَ : زمین نَنْقُصُهَا : اس کو گھٹاتے ہوئے مِنْ : سے اَطْرَافِهَا : اس کے کنارے (جمع) اَفَهُمُ : کیا پھر وہ الْغٰلِبُوْنَ : غالب آنے والے
بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو دنیا سے بہرہ مند کیا یہاں تک کہ اسی حال میں ان پر ایک طویل مدت گزر گئی۔ تاہم کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہم سر زمین (مکہ) کی طرف اس کو اس کے اطراف سے کم کرتے ہوئے بڑھ رہے ہیں ! تو کیا یہ لوگ غالب رہنے والے ہیں
اصل سبب استکبار و اعراض یہ ان کے اصل سبب استکبار و اعراض سے پردہ اٹھایا ہے کہ ایک طویل مدت تک خدا کی نعمتوں سے بہرہ مند رہنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کے دل سخت و سیاہ ہوچکے ہیں۔ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ عزت و اقتدار جو ان کو حاصل ہے ان کے آباء و اجداد کا ورثہ ہے، یہ اس کے موروثی حق دار ہیں، اسی میں وہ پیدا ہوئے ہیں، اسی میں عیش کریں گے اور اس کے وارث ان کے اخلاف ہوں گے۔ اس زعم باطل نے پیغمبر کے انذار سے ان کو بالکل بےپروا کر رکھا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر کی ساری تنبیہات محض ہوائی ہیں۔ ان کے اقتدار کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ ایک طویل مدت تک خدا کی نعمت سے برہ مند رہنے کا نتیجہ نا شکروں پر قساوت قلب ہی کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ سورة حدید میں اس کا ذکر آیا ہے۔ آیت 16 اور ان لوگوں کی طرح بن کر نہ رہ جائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی تو ان پر ایک طویل مدت گزر گئی اور ان کے دل سخت ہوگئے۔ افلا یرون انا ناتی الارض نفقصھا من اطرافھا الارض سے مراد یہاں سر زمین مکہ ہے۔ سورة حج میں جہاں مسلمانوں کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ سر زمین حرم کو کفار کے تسلط سے آزاد کرانے کے لئے جہاد کریں وہاں فرمایا ہے کہ (آیت 41) ہم ان لوگوں کی مدد کریں گے جن کا حال یہ ہے کہ اگر ہم نے ان کو سر زمین حرم میں متمکن کیا تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے، زکوۃ ادا کریں گے، نیکی کا حکم دیں گے، منکر سے روکیں گے اور عاقبت کار کی کامیابی اللہ کے اختیار میں ہے) قرینہ دلیل ہے کہ یہاں الارض سر زمین حرم ہی کے لئے آیا ہے بعینیہ یہی مضمون سورة رعد آیت 41 میں بھی بیان ہوا ہے۔ وہاں ہم وضاحت سے اس کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈال چکے ہیں۔ آیت زیر بحث میں ان آثار کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جو اس دور میں غلبہ اسلام کے لئے نمایاں ہوچکے تھے۔ مکہ میں حق و باطل کی جو کشمکش برپا تھی اس میں مکہ کے حد تک تو حق ابھی مظلوم تھا لیکن اطراف کے قبائل اور خاص طور پر مدینہ میں اسلام کی دعوت جڑ پکڑ رہی تھی جس سے بالتدریج یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ کفر کا حیطہ اقتدار کم ہو رہا ہے اور اسلام مکہ کے اطراف سے مکہ کو زیرنگیں کرنے کے لئے اس کو آہستہ آہستہ اپنے گھیرے میں لے رہا ہے۔ اسلام کے اسی تدریجی غلبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا یہ لوگ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہم اطراف مکہ سے ان لوگوں کے تسلط کو بالتدریج کم کرتے ہوئے مکہ کی طرف بڑھ رہے ہیں ! افھم الغلبون یعنی یہ قرائن اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اس کشمکش کے نتیجہ میں یہ غالب رہیں گے یا اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام اور اس کے علمبردار غالب رہیں گے ! اگر کوئی نشانی ہی مطلوب ہے تو یہ لوگ ان آثارکو کیوں نہیں دیکھتے جو ان کے اپنے اطراف میں نمایاں ہو رہے ہیں !
Top