Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَآ : تحقیق البتہ ہم نے دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم رُشْدَهٗ : ہدایت یابی (فہم سلیم) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور ہم تھے بِهٖ : اس کے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
اور اس سے پہلے ہم نے ابراہیم کو اس کی ہدایت عطا فرمائی اور ہم اس سے خوب باخبر تھے
رشد و ہدایت میں حضرت ابراہیم کا مرتبہ خاص رشد سے مراد ہدایت و معرفت ہے اور اس کی اضافت نے اس کے اندر ایک خاص امتایز کا مفہوم پیدا کردیا ہے۔ یعنی ابراہیم کو ہم نے وہ ہدایت و معرفت عطا فرمائی جو اس کے درجے اور مرتبے کے شایان شان تھی۔ ہدایت و معرفت کے مختلف مدارج ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی اس میں سے کوئی حصہ عطا فرماتا ہے۔ وہ اس کی صلاحیتوں کو جانچ کر اس کے درجہ و مرتبہ کے اعتبار سے عطا فرماتا ہے۔ حضرت ابراہیم کو اس میں سے جو حصہ وافر ملا اس کی وضاحت ہم آیت واذایتلی ابرھم ربہ الآیہ کے تحت کرچکے ہیں۔ انکے اسی وصف خاص کی طرف یہاں اشارہ فرمایا ہے۔ وکنا بہ علمین یعنی یہ مرتبہ بلند جو ہم نے اس کو بخشاتویوں ہی نہیں بخش دیا بلکہ نہایت کڑے امتحانوں میں ڈال کر اچھی طرح پرکھ لیا کہ وہ اس مرتبہ کا سزا وار ہے۔ اس فقرے میں ان لوگوں پر تعریض بھی ہے جو اپنے اندر ہمت تو حضرت ابراہیم کی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ سنت پر عمل کرنے کی بھی نہیں رکھتے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ نسبت کے دعویدار اور اس نسبت کے بل پر اپنے آپ کو دنیا اور آخرت دونوں میں بڑے سے بڑے مرتبہ کا حق دار سمجھے بیٹھے تھے۔ فرمایا کہ خدا کے ہاں اس غلط بخشی کی گنجائش نہیں ہے وہ جس کو اپنی معرفت و حکمت بخشا ہے اس کے ظرف اور اس کے حوصلہ کو دیکھ کر بخشتا ہے۔
Top