Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 52
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ سے وَقَوْمِهٖ : اور اپنی قوم مَا هٰذِهِ : کیا ہیں یہ التَّمَاثِيْلُ : مورتیاں الَّتِيْٓ : جو کہ اَنْتُمْ : تم لَهَا : ان کے لیے عٰكِفُوْنَ : جمے بیٹھے ہو
جب کہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ یہ کیا مورتیں ہیں جن پر تم دھرنا دیئے بیٹھے ہو !
قوم سے اصنا مکہ بارے میں بحث اب یہ ان کی بالکل ابتدائی سرگزشت حیات کا ایک واقعہ بیان ہو رہا ہے جس سے ان کی جرأت و فتوت بھی واضح ہو رہی ہے اور وہ ہدایت و معرفت بھی جو اللہ تعالیٰ نے عین عنفوان شباب میں ان کو بخشی۔ ان کی ولادت اگرچہ ایک بت پرست قوم، ایک مبتلائے شرک خاندان اور ایک مشرک اور بت گر باپ کے گھر میں ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو توحید کا وہ نور عطا فرمایا جس کی روشنی سے دنیا آج تک منور ہے قیامت تک منور رہے گی۔ انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں کو دعوت دی کہ یہ مورتیں کیا ہیں جن پر تم لوگ دھرنا دیئے بھے ا ہو ! اس فقرے میں ان بتوں کے لئے جو استخفاف و تحقیر ہے اور لفظ عکفون میں باپ اور قوم کی بلاوت اور ان کے جمود و جو طنز ہے وہ عربی زبان کا ذوق رکھنے والوں سے مخفی نہیں ہے۔ اس عمر میں اور ایسے ماحول کے اندر یہ نعرہ حق وہی بلند کرسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ توفیق خاص سے نوازے اور جس کے ایمان کی سطوت و جلالت ہر خوف اور ہر طمع سے بالکل بےپروا و بےنیاز ہو۔
Top