Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 56
قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَهُنَّ١ۖ٘ وَ اَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ رَّبُّكُمْ : تمہارا رب رَبُّ : رب (مالک) السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین الَّذِيْ : وہ جس نے فَطَرَهُنَّ : انہیں پیدا کیا ڮ وَاَنَا : اور میں عَلٰي ذٰلِكُمْ : اس بات پر مِّنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
اس نے کہا بلکہ تمہارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور میں اس پر تمہارے سامنے گواہی دینے والوں میں سے ہوں
حضرت ابراہیم کا خاص طرز استدلال حضرت ابراہیم نے لگے ہاتھوں، بقید قسم، لوگوں کو اپنے اس ارادہ سے بھی آگاہ کردیا کہ جب آپ لوگ یہاں سے ہٹو گے تو میں ان بتوں کے ساتھ ایک خفیہ کارروائی کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔ فظ کید پر ہم مختلف مقامات میں بحث کرچکے ہیں کہ یہ کسی ایسے اقدام کے لئے بھی آتا ہے جو کسی مخالف کے خلاف اس طرح کیا جائے کہ وہ اس سے باخبر نہ ہو سکے۔ تولوامد برین کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے یہ دعوت بت خانہ کے اندر کسلی اجتماع کے موقع پر دی ہے۔ اسی وجہ سے فرمایا کہ جب آپ لوگ یہاں سے گھروں کو سدھاریں گے تو میں آپ کے ان خدائوں کی مرمت کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اصل اسکیم کو حضرت حضرت ابراہیم نے مخفی رکھا۔ یہ جس صورت میں ظاہر ہوئی اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ لیکن اس تفصیل کو پھڑنے سے پہلے حضرت ابراہیم کے مخصوص طریقہ بحث و استدلال کے ان پہلوئوں پر ایک نظر ڈال لجییی جن کی وضاحت سورة انعام کی آیات 79-76 کے تحت بعنوان حضرت ابراہیم کے طرز استدلال کی بعض خصوصیات ہم کر آئے ہیں۔ حضرت ابراہیم بحث و استدلال میں لطیف و پاکیزہ طنز سے جسطرح کام لیتے ہیں اسی طرح استدراج بھی حجت ابراہیمی کی ایک نہایت نمایاں خصوصیت ہے۔ استدراج کا مطلب یہ ہے کہ وہ بحث میں اپنے حریف کو واں سے دائوں پر لاتے ہیں جہاں سے ان کو بیان گمان بھی نہیں ہوتا۔ بالآخر وہ چاروں شانے چت گرتا ہے اور اسے خود اپنی زبان سے اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑتا ہے یہی طریقہ استدراج حضرت ابراہیم نے اپنے حریفوں کو قائل کرنے کے لئے اس موقع پر استعمال فرمایا انہوں نے شب میں کوئی موق نکال کر تمام چھوٹے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا اور ذہن میں یہ رکھا کہ اگر نوبت مجھ سے باز پرش کی آئی تو میں کہہ دوں گا کہ یہ حرکت تو ان بڑے صاحب کی معلوم ہوتی ہے اور مجھ سے پوچھنے کے بجائے خود ان مظلوموں ہی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے، اگر وہ بولتے ہیں تو اپنی داستان غم خود ہی سنا دیں گے کہ یہ مصیبت ان پر کس کی لائی ہوئی ہے ! ظاہر ہے کہ اس کے بعد وہ لازماً یہی کہیں گے کہ یہ تو بولتے نہیں تو ان سے کس طرح پوچھا جائے تو میں ان سے کہوں گا کہ نادانو ! جو خود اپنے اوپر آئی ہوئی مصیبت کو نہ دفع کرسکتے ہیں نہ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ مصیبت کس کے ہاتھوں ان پر آئی آخر وہ کس مرض کی دوا ہیں کہ تم ان کو معبود بنا کر ان کو ڈنڈوت کرتے ہو ! یہی وہ ذہنی اسکیم ہے جس کو حضرت ابراہیم نے کید سے تعبیر فرمایا۔ اس میں طنز، تضحیک اور استدراج کے جو پہلو ہیں وہ واضح ہیں اور حریفوں کو جس طرح بےبس ہو کر اس حجت ابراہیمی کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پڑے اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
Top