Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 62
قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُؕ
قَالُوْٓا : انہوں نے کہا ءَاَنْتَ : کیا تو فَعَلْتَ : تونے کیا ھٰذَا : یہ بِاٰلِهَتِنَا : ہمارے معبودوں کے ساتھ يٰٓاِبْرٰهِيْمُ : اے ابراہیم
انہوں نے پوچھا کہ ابراہیم ! کیا یہ حرکت ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کی ہے
آیت 63-62 حضرت ابراہیم کا جواب بالآخر مذکورہ بالا حکم کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ عام لوگوں کے سامنے، پیشوایان دین کی عدالت میں پیش کئے گئے اور ان سے سوال ہوا کہ حضرت ابراہیم کیا ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ جرم تم نے کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم نے نہایت تیکھے طنز اور استہزا کے انداز میں جواب دیا کہ یہ کارستانی تو انکے اس بڑے کی معلوم ہوتی ہے اور اس بارے میں مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے، آخر آپ لوگ انہی سے کیوں نہیں پوچھتے، اگر یہ بولتے ہیں تو خود ہی اپنی کہانی آپ کو سنا دیں گے ! یہ جواب دے کر حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کے ان بزرگوں کو اس مقام پر لاکھڑا کیا جہاں اعتراف شکست کے سوا کوئی اور راہ ان کے لئے باقی ہی نہیں رہ گئی۔ ان کو مجبوراً تسلیم کرنا پڑا کہ لقد علمت ما ھولآء ینطقون (یہ تو تمہیں اچھی طرح علم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں) ان کے اس اعتراف کے بعد حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ اف تکم ولما تعبدون من دون اللہ افلاتعقلون یعنی اگر یہ اس لائق بھی نہیں کہ خود اپنی بپتا تم کو سنا سکیں تو آخر یہ کس مرض کی دوا ہیں کہ ان کی عبادت کرتے ہوچ تم پر اور تمہایر ان معبودوں پر لعنت ہے۔ آخر تم لوگ عقل سے کیوں کام نہیں لیتے ! حضرت ابراہیم پر خوف یا جھوٹ کی تہمت عربی سے بیخبر ی پر مبنی ہے جن لوگوں نے حضرت ابراہیم کے جواب، بل فعلہ کبیرھم کو کذب یا خوف پو محمول کیا ہے وہ عربی سے بیخبر ی کے باعث اس ارشاد کی بلاغت کو نہ سمجھ سکے۔ خوف کا سوال اس لئے نہیں پیدا ہوتا کہ جب وہ اس طرح بےجھڑک قوم کے بت خانے کے اندر توحید کے ذان دیتے ہیں، بتوں کے خلاف ایک مخفی اقدام کا اعلان کرتے ہیں اور پھر عین عدالت کے منہ پر ساری وقم کے سامنے اف لکم ولما تعبدون کے الفاظ سے بتوں پر بھی اور ان کے پوجنے والوں پر بھی لعنت کرتے ہیں تو ایسے مرد حق کے بارے میں یہ گمان بالکل ہی خلاف عقل ہے کہ وہ کس خطرے سے مرعوب ہو کر سخن سازی کرے گا۔ رہا اس کے جھوٹ ہونے کا معاملہ تو قطع نظر اس سے کہ حضرت ابراہیم جھوٹ بلو سکتے ہیں یا نہیں کہی ہوئی بات میں کوئی پہلو ایسا نہیں ہے کہ اس کو جھوٹ پر محمول کیا جاسکے۔ اس کو کہہ سکتے ہیں تو ایک لطیف طنز، ایک پر معنی استہزاء اور ایک حکمیانہ استدراج کہہ سکتے ہیں، جھوٹ کا تو اس میں کوئی ادنیٰ شائبہ بھی نہیں ہے۔ چناچہ دیکھ لیجیے حضرت ابراہیم کے مخالفوں نے بھی ان پر جھوٹ کا الزام نہیں لگایا حالانکہ اگر وہ ان کے جواب کو جھوٹ سمجھتے تو وہ بڑی آساین سے ان کو جھوٹا قرار دے سکتے تھے۔ پھر جب ان کے دشمنوں نے ان کو جھوٹ قرار دینے کی جرأت نہیں کی تو نعوذ باللہ ہم ان کو جھوٹا کیں قرار دیں 1 بعض لوگوں کو ایک حدیث کی بنا پر مغالطہ ہوا تھا جس میں یہ آیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے تین جھوٹ بولے جن میں سے ایک ان کا یہ قول بل فعلہ کبیر ھم ھذا بھی ہے۔ ہمارے نزدیک اس حدیث کے سمجھنے میں لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔ عربی میں لفظ کذاب کئی معنوں میں آتا ہے۔ اگر کہیں کذب فلاں تو اس کے معنی جس طرح یہ ہو سکتے ہیں کہ اس نے جھوٹ بولا اسی طرح یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اس نے غلطی کی اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اس نے توریہ کیا۔ اس کے صحیح مفہوم کا تعین اس کے سیاق و سبقا سے ہوتا ہے۔ توریہ کا مفہوم اپنے مخالف کے سامنے اپنی بات کو اس طرح پیش کرنا ہے کہ مخاطب اس سے مغالطہ میں پڑج ائے۔ اوپر ہم نے استداج کا جو ذکر کیا ہے وہ بھی اسی میں شامل ہے۔ اس توریہ کی نہایت لطیف و پاکیزہ مثالیں قرآن میں بھی موجود ہیں اور سلف صالحین کے اقوال میں بھی۔ سورة یوسف کی تفسیر میں بعض عمدہ مثالیں گزر چکی ہیں ر۔ حضرت ابراہیم کا ایک لطیف و پاکیزہ توریہ انی سقیم بھی ہے۔ اس کی بلاغت انشاء اللہ سورة صافات کی تفسیر میں ہم واضح کریں گے۔ اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی عیب نہیں ہے بلکہ بعض حالات میں یہ دشمن کے مقابل میں رساتبازوں کا ایک ارگر حربہ ہے۔ حدیث میں حضرت ابراہیم کے لئے کذب کے اس مفہوم کے ثبوت میں کلام عرب کے شواہد میں پیش کرسکتا ہوں لیکن بحث بالکل دوسرے گوشے میں نکل ائے گی اس وجہ سے اس کو کسی مناسب موقع کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ ابطال شرک کی ایک واضح دلیل یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ سیدنا حضرت ابراہیم کا قول بل فعلہ کبیرھم ھذا بجائے خود ابطال شرک کی ایک نہایت واضح دلیل ہے جو قرآن میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوئی ہے۔ اگر اس کائنات میں مختلف چھوٹے بڑے خدائوں کی خائی مان لی جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ خدائے اعظم اپنی خائی میں دوسروں کی شرکت تسلیم کرنے پر راضی ہو اور اگر بالفرض کسی وقت مصلحت سے وہ راضی بھی ہوجائے تو یہ امر بعید نہیں ہے کہ کسی دن وہ برہم ہو کر سب کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے۔ اسی حقیقت کو سیدنا حضرت ابراہیم نے اپنے اس فعل سے ممثل کر کے دکھا دیا اور ان کے حریف اس حقیقت کو، جیسا کہ آگے کی آیت سے واضح ہوگا، پا بھی گئے اگرچہ وہ اس پر قائم نہ رہ سکے۔ بہرحال ہمارے نزدیک یہ ایک نہایت اعلیٰ حکیمانہ استدراج و استدلال اور شرک اور اہل شرک کی تفضیح و تضحیک ہے۔ اس کو جھوٹ پر محمول کرنے کی کوئی ادنیٰ وجہ بھی نہیں ہے۔
Top