Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 72
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ١ؕ وَ یَعْقُوْبَ نَافِلَةً١ؕ وَ كُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ
وَوَهَبْنَا : اور ہم نے عطا کیا لَهٗٓ : اس کو اِسْحٰقَ : اسحق وَيَعْقُوْبَ : اور یعقوب نَافِلَةً : پوتا وَكُلًّا : اور سب جَعَلْنَا : ہم نے بنایا صٰلِحِيْنَ : صالح (نیکو کار)
اور ہم نے اس کو اسحاق اور مزید برآں یعقوب عطا کئے اور ہم نے ہر ایک کو نیک بخت بنایا
آیت 73-72 حضرت ابراہیم پر اللہ کا انعام یہ اللہ تعالیٰ نے وہ انعام بیان فرمایا ہے جو ہجرت کے بعد اس نے حضرت ابراہیم پر یکے بعد دیرگے کیا۔ حضرت ابراہیم نے اللہ کی خاطر اپنی قوم اور عزیزوں کو چھوڑا تھا تو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے بیٹے پوتے عطا فرمائے۔ انہوں نے جن کو چھوڑا تھا وہ نابکارو ناہنجار تھے اور اللہ نے ان کی جگہ ان کو جو دیے وہ سب ایک سے ایک بڑھ کر صالحین و اخیار میں سے تھے۔ نافلۃ سے اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ حضرت ابراہیم کو حضرت اسماعیل تو ان کی دعا کے صلہ میں ملے مزید برآں اللہ تعالیٰ نے ان کو اسحاق اور یعقوب بھی عطا فرمائے اور اس کے بعد نبوت کا ایک سلسلہ قائم ہوگیا۔ 1 ؎ وجعلنھم الیۃ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ امتوں کے بانی اور قوموں کے امام ہوئے۔ اگرچہ ہر نبی اپنے منصب کے لحاظ سے امام ہوتا ہے لیکن بعض انبیاء ایسے بھی گزرے ہیں جن کے سایہ کے سوا ان کا کسی نے ساتھ نہیں دیا مگر حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہما السلام) کو بالفضل اللہ تعالیٰ نے منصب امامت پر سرفراز فرمایا اور انہوں نے ایک عظیم امت کی قیادت فرمائی۔ واوحانا الیھم فعل الخیرت وا ام الصلوۃ و اتیآ مالزکوۃ وکانوا لنا عبدین اقام الصلوۃ درصال اقا متا الصلوۃ ہے اقامۃ کی ’ ۃ ‘ آہنگ وصوت کے تقاضے سے گر گئی ہے۔ اس قسم کی تخفیف بتقاضائے جن صوت عربی میں معروف ہے۔ ان انبیاء کی دعوت کے ان اجزاء کے گنانے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ان کی دعوت دہی رہی ہے جو قرآن دے رہا ہے اور یہ تمام انبیاء صرف خدا ہی کے عبادت گزار تھے، خدائے واحد کے سوا انہوں نے کسی اور کے آگے سر نہیں جھکایا۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ان نبیوں کے نام لویا اور ان کے ساتھ نسبت کے مدعی ہیں وہ اس آئینہ میں اپنے منہ دیکھیں اور اپنے قول و عمل کا جائزہ لیں وہ کیا تھے اور یہ کیا بن کے رہ گئے۔
Top