Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 76
وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ
وَنُوْحًا : اور نوح اِذْ نَادٰي : جب پکارا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَاسْتَجَبْنَا : تو ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی فَنَجَّيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے نجات دی وَاَهْلَهٗ : اور اس کے لوگ مِنَ : سے الْكَرْبِ : بےچینی الْعَظِيْمِ : بڑی
اور نوح کو بھی ہم نے اپنی ہدایت بخشی یاد کرو جب کہ اس نے دعا کی اس سے پہلے تو ہم نے اس کی دعا قبول کی پس اس کو اور اس کے لوگوں کو عظیم کلفت سے نجات دی
حضرت نوح کا حوالہ نوحاً کا نصب اس مفہوم سے پیدا ہوا ہے جو یہاں سلسلہ کلام سے مستفاد ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح ہم نے اپنے مذکورہ بالا بندوں پر اپنی رحمت نازل کی، ان کو نجات دی اور ان کی مدد فرمائی اسی طرح اس سے پہلے اپنے بندے نوح کو بھی ہم نے نجات دی اور اس کی مدد فرمائی۔ حضرت نوح کی ٓخری دعا اذ نادی من قبل فاستجبنالہ یہ حضرت نوح کی اس آخری دعا کی طرف اشارہ ہے جو سورة نوح میں تفصیل سے مذکور ہے اور جس کو پڑھ کر دل کا نپ اٹھتا ہے اس دعا کی قبولیت جس شکل میں ظاہر ہوئی اس کی تفصیل تو سورة نوح میں آئے گی۔ یہاں صرف اس سلسلہ کی آخری آیات کو یاد کر لیجیے۔ مما خطیتھم اغرقوا فادخلوا ناراً ، فلم یجدوالھم من دون اللہ انصاراً وقال نح رب لاتذر علی الارض من الکفرین دیارا انک ان تذرھم یضلوا عبادک ولا یلد و الا فاجراً کفاراً رب افغرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مئومنا وللمومنین و المومنت ط ولاتردا الظلمین الا تباراً (نوح 28-25) پس قوم نوح کے لوگ اپنے جرموں کی پاداش میں غرق کردیئے گئے اور آگ میں داخل کئے گئے اور وہ خدا کے مقابل میں اپنے لئے کوئی مددگار نہ پا سکے۔ اور نوح نے دعا کی کہ اے میرے رب ! تو زمین پر ان کافروں میں سے ایک کو بھی چلتا پھرتا نہ چھوڑ۔ اگر تو ان کو چھوڑے رکھے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور صرف ناہنجاروں اور ناشکروں ہی کو جنم دیں گے۔ اے میرے رب ! میری اور میرے والدین کی مغفرت فرما اور ان کی جو میرے گھر میں ایمان کے ساتھ داخل ہو ائیں اور تمام مومنین و مومنات کی اور ظالموں کے صرف تباہی میں اضافہ کر۔ فنجینہ واھلہ من الکرب العظیم لفظ اھل کی تحقیق سورة طہ کی آیت 132 کے تحت گزر چکی ہے۔ اس سے کسی شخص کے اہل خانہ اور اتباع و اصحاب سب مراد ہوتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اور انکے باایمان ساتھیوں کو ایک عظیم کلفت اور بہت بڑی مصیبت سے نجات بخشی کرب عظیم سے مراد وہ غم و الم بھی ہے جو اعدائے حق کی ستم رانیوں اور اذیتوں سے ایک مدت دراز تک ان کو اور ان کے مظلوم ساتھیوں کو لاحق رہا اور وہ عذاب عظیم بھی ہے جس میں بالآخر ان کی پوری قوم مبتلا ہوئی۔
Top