Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 81
وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا١ؕ وَ كُنَّا بِكُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَ
وَلِسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان کے لیے الرِّيْحَ : ہوا عَاصِفَةً : تیز چلنے والی تَجْرِيْ : چلتی بِاَمْرِهٖٓ : اس کے حکم سے اِلَى : طرف الْاَرْضِ : سرزمین الَّتِيْ بٰرَكْنَا : جس کو ہم نے برکت دی ہے فِيْهَا : اس میں وَكُنَّا : اور ہم ہیں بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
اور ہم نے سلیمان کے لئے باد تند کو مسخر کردیا تھا جو اس کے حکم سے اس سر زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں اور ہم ہر چیز سے باخبر ہیں
حضرت سلیمان کا عظیم بحری بیڑا یہاں ’ ل ‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ فعل مخدوف ہے۔ سخرنالہ کا مفہم ہم اس کے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ ’ ل ‘ کے صلہ کے ساتھ یہ لفظ کسی شے کا کسی کی خدمت میں لگا دنیے کے معنی میں آتا ہے۔ یعنی ہم نے تند ہوائوں کو بھی مسخر کر کے سلیمان کی خدمت میں لگا دیا تھا۔ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود کی بری قوت تو بہت تھی لیکن ان کی حکومت کی بحری قوت میں بےمثال ترقی حضرت سلیمان کے عہد میں ہوئی۔ انہوں نے ایسے باد بانی جہاز ایجاد کیے جو ہندوستان اور مغربی جزائر تک سفر کرتے تھے۔ ان کا بحری بیڑا وقت کا سب سے زیادہ طاقتور بیڑا تھا۔ بحر احمر میں اس کا مرکز ترسیس تھا جو خلیج عقبہ میں واقع تھا اور بحر متوسط میں صور، طائر اور یافہ کی بندرگاہیں اس زمانے تک سمندری ہوائوں کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ بادبان ہی تھے۔ یہی بادبان جہازوں کے لئے انجن کا کام دیتے تھے۔ حضرت سلیمان نے ایسے بادبان ایجاد کئے جو تند ہوائوں میں بھی جہاز کی آمد و رفت میں خلل واقع نہیں ہونے دیتے تھے۔ وہ اپنی معینہ سموں میں، موافق و ناموافق ہر قسم کی ہوائیں، اپنے لمبے لمبے سفر بےخوف و خطر جاری رکھتے۔ یہ چیز چونکہ خدا کی سکھائی ہوئی سائنس کا ثمرہ تھی اس وجہ سے فرمایا کہ ہم نے سلیمان کے لئے تند ہوائیں مسخر کردی تھیں جو اس کے حکم سے چلتی تھیں۔ الارض التی برکنا فیھا سے اشارہ فلسطین اور شام وغیرہ کے علاقے ہیں جو زرخیز ہونے کے سبب سے تجارتی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت رکھنے والے تھے۔ وکنا بکل شی علمین بعینیہ یہی فقرہ معمولی تغیر کے ساتھ آیت 51 میں حضرت ابراہیم کی شان میں وارد ہوا ہے۔ وہاں ہم اس کا مفہوم واضح کرچکے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت سلیمان کی صلاحیتوں اور ان کے ظرف اور حوصلہ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اس وجہ سے ہم نے ان کو اپنی ہوائوں پر یہ تصرف بخشا اور ہم یہ کچھ دے کر اپنی آنکھیں موند کر بیٹھ نہیں گئے تھے بلکہ ہر چیز کو جانتے اور دیکھتے رہے تھے کہ سلیمان ہماری بخشی ہوئی طاقت کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ درحقیقت یہی نکتہ ہے جو ہمارے اس عہد کے سائنسدانوں کی سمجھ میں نہیں آیا ہے۔ تسخیر کائنات خدا کا فضل ہے انہیں تسخیر کائنات کی ہمات میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں ان کو وہ خدا کا فضل سمجھنے کے بجائے اپنی ذہانت کا کرشمہ تصور کرتے ہیں حالانکہ انسان کو جو کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے خدا کی بخشی ہوئی عقل اور خدا ہی کی رہنمائی سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی حقتقا کی طرف اوپر دکنا فعلین سے اشارہ فرمایا ہے۔ پھر جب انسان اس مغالطہ میں پڑجاتا ہے کہ اس کی یہ تمام ایجادات اس کا اپنا کار نامہ ہیں تو اس مغالطہ کے بطن سے ایک اور مغالطہ جنم لیتا ہے جو اس سے بھی زیادہ مہلک ہے، وہ یہ کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ ان حاصل کردہ قوتوں سے جس طرح چاہے کام لے کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے۔ قرآن نے ونا بکل شی علمین سے اس مغالطہ پر بھی ضر لگائی ہے کہ قدرت نادان نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے خزانوں کی کنجیاں پکڑا کر خود کنارہ کش ہو کر بیٹھ رہے، لوگ جو چاہیں بناتے پھریں، بلکہ وہ ہر چیز سے آگاہ ہے اور جب وہ آگاہ ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی بخشی ہوئی قوت کو اگر کسی نے غلط استعمال کیا تو وہ لازماً اس کے لئے ایک دن مسئول ہوگا۔ حضرت دائود حضرت سلیمان (علیہما السلام) اس رمز سے خوب آگاہ تھے اس وجہ سے برد بحر دونوں میں عظیم کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود ایک لمحہ کے لئے بھی وہ اس مغالطہ میں مبتلا نہیں ہوئے کہ یہ ان کے اپنے کارنامے ہیں بلکہ انہوں نے ان ساری چیزوں کو خدا کا فضل سمجھا اور جو قدم بھی اٹھائے یہ سوچ کر اٹھائے کہ ایک دن ان کو خدا کے سامنے پیش ہونا اور اپنے ہر عمل کی جواب دہی کرنی ہے۔ یہی احسا ہے جو انسان کو خدا کہ ایک دن ان کو خدا کے سامنے پیش ہونا اور اپنے ہر عمل کی جواب دہی کرنی ہے۔ یہی احساس ہے جو انسان کو خدا کا حقیقی شکر گزارو تابعدار بندہ بناتا ہے۔ حضرت دائود سلیمان (علیہما السلام) کی زندگی کا یہ پہلو انشاء اللہ سورة نمل کی تفسیر میں تفصیل سے زیر بحث آئے گا۔
Top