Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور ایوب پر بھی ہم نیح رحمت کی۔ جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مبتلائے آزار ہوں اور تو تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے !
حضرت ایوب اور ان کا مثالی صبر شکر کی دو اعلیٰ مثالیں پیش کرنے کے بعد اب یہ ان انبیائے کرام کا ذکر آ رہا ہے جنہوں نے صبر کی نہایت اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت ایوب کا ذکر فرمایا ہے۔ سفر ایوب سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک عوض میں حضرت ایوب ایک نہایت کامل اور راستباز انسان تھے۔ خدا نے انہیں بڑا خاندان اور بڑی دولت دے رکھی تھی۔ ان کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ سات ہزار بھیڑیں، تین ہزار اونٹ، ایک ہزار بیل اور پانچ سو بار براداری کے گدھے ان کے پاس تھے۔ ان کے نوکر چاکر بھی بیشمار تھے۔ اہل مشرق میں یا اس درجہ کا مالدار کوئی اور نہ تھا لیکن یہ تمام خدم و حشم رکھنے کے باوجود وہ خدا کے نہایت شکر گزار اور فرمانبردار بندے تھے کبھی کسی ربائی سے وہ الٓودہ نہ ہوئے۔ ان کی اس نیکی پر شیطان اور اس کے ایجنٹوں کو حسد ہوا۔ انہوں نے طعنہ دیا کہ ایوب کی یہ خدا پرستی اور استبازی اس لئے ہوئی کہ خدا نے اسے ہر طرح کی خوشحالیاں دے رکھی ہیں۔ اگر یہ ان سے محروم ہوجائے تو پھر کبھی خدا کا شکر گزار نہ ہو۔ 1 ؎“ اس کے بعد خدا کی طرف سے ان کے لئے آزمائشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان کے مویش لوٹ لئے گئے، نوکر چاکر قتل ہوگئے، اولاد مر گئی اور دولت و حشمت سب غائب ہوگئی لیکن حضرت ایوب خدا سے مایوس ہونے کے بجائے اسی کے دروازے پر گر پڑے۔ سفر ایوب میں ہے کہ ”وہ سجدے میں گر پڑا اور کہا میں اپنی ماں کے پیٹ سے برہنہ پیدا ہوا تھا اور بہنہ ہی دنیا سے جائوں گا۔ خداوند نے مجھے دیا تھا اور خداوند نے لے لیا اس کے نام کے لئے ساری پاکیاں اور مبارکیاں ہوں۔“ سفر ایوب 22:1 مالی آفات و مصائب کے بعد جسمانی تکالیف والام کا سلسلہ شروع ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ”ایوب کے تلوے سے لے کر سر کی چاندی تک سارے جسم میں جلتے ہوئے پھوڑے نکل آئے۔ وہ ایک ٹھیکرا لے کر اپنا جسم کھجاتا اور راکھ پر بیٹھا رہتا۔“ سفر ایوب 8-2 حضرت ایوب نے ان تکالیف کا بھی اسی صبر و رضا کے ساتھ مقابلہ کیا جس صبر و رضا کے ساتھ انہوں نے مالی آفات و مصائب کا مقابلہ کیا بالآخر اس امحتان سے بھی وہ بحسن و خوبی عہدہ برآ ہوئے جس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے زیادہ دیا جو انہوں نے کھویا تھا۔ ”اور خداوند نے ایوب کی حالت بدل دی۔ اسے پہلے کی نسبت دو چند دولت عنایت کی۔ اس کے تمام عزیزوں کو اس کے گرد جمع کردیا۔ اسے آخری عمر میں پہلے کی طرح اولاد ملی۔ وہ ایک سو چالیس برس تک جیا اور اپنی نسل کی چار پشتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ سفر ایوب 10:42 مقام رضا اور اس کا اجر انی مسنی الضروانت ارحم الرحمین اس دعا کی اس بلاغت کو محلوظ رکھیے کہ حضرت ایوب نے اپنے دکھ اور درد کا حالہ تو دیا لیکن حرف مدعا کو زبان پر نہیں لائے۔ اس کو خدا کی رحمت پر چھوڑ دیا۔ فرمایا کہ میں دکھی ہوں اور تو تمام رحم کرنے والاوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنا دکھ تیرے آگے پیش کرتا ہوں اور معاملہ تیری رحمت کے حوالہ کرتا ہوں تو جو کچھ کرے گا اپنی شان رحیمی کے مطابق کرے گا اور اسی میں میرے لئے برکت و رحمت ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کو مقام رضا کہتے ہیں جو اس مقام کو حاصل کرلیتا ہے اسی کو آخرت میں مراضیۃ موضیۃ کا درجہ حاصل ہوگا۔ اس دنیا میں انس ان کو جن حالات اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے ان میں یہ متعین کرنا کہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں کے اعتبار سے خیر کس میں ہے، انسان کے لئے نہایت مشکل ہے۔ وہ بسا اوقات جس چیز کو چاہتا ہے اس کی عاقبت کے پہلو سے اس کے لئے فلاح وسعادت اس کے ضد پہلو میں ہوتی ہے اس وجہ سے ان تمام امور میں، جن میں خیر کا پہلو خدا کی طرف سے معین نہ ہو، معاملہ کو اللہ کے حوالہ کرنے ہی میں سعادت ہے۔ وہی جانتا ہے کہ بندے کے لئے بیماری بہتر ہے یا تندرستی، موت بہتر ہے یا زندگی ! فکشفنا مابہ من ضرواتینہ اھلہ ومثلھم معھم اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کی دعا قبول رمائی۔ ان کی وہ تمام تکالیف بھی دور فرما دیں جن میں وہ مبتلا تھے اور ان کے اہل و عیال اور ان کے خدم و حشم بھی ان کو از سر نو عطا فرمائے۔ یہ امر محلوظ رہے کہ حضرت ایوب نے اپنی دعا میں صرف اپنی تکالیف کی طرف اشارہ فرمایا، آل و اولاد اور مال و اسباب کے لئے کسی تمنا کا اظہار نہیں کیا۔ وہ جن حالات میں مبتلا تھے ان میں ان کے لئے یہی بڑی چیز تھی کہ ان کے دکھ کا ازالہ ہوجائے، اس سے زیادہ کے لئے ارمان کرنے کی کہاں گنجائش تھی ! لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو وہ بھی دیا جو انہوں نے مانگا اور وہ بھی دیا جس کا وہ اپنی تواضع کے سبب سے اب اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھ رہے تھے۔ فاتینہ اھلہ و مثلھم معھم سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس دور آزمائش میں ان کے جو اہل و عیال اور اعزازو اقربا منتشر ہوگئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اکٹھا کردیا، جو وفات پا گئے تھے ان کے نعم البدل بھی دیے اور ان کے متعلقین کے دائرے کو مزید وسیع بھی کردیا۔ رحمۃ من عند زاد ذکری للعبدین یعنی یہ جو کچھ ہوا خاص ہمارے فضل سے ہوا حالات بظاہر بالکل مایوس کن تھے، نہ ایوب اس کی توقع کرسکتے تھے نہ کوئی دوسرا لیکن ہم نے اپنی رحمت سے اپنے بندے ایوب کے لئے سب کھچ کردیا۔ وذکری للعبدین یعنی یہ ہم نے اس لئے بھی کیا کہ یہ واقعہ مارے عبادت گزار بندوں کے لئے ایک یادگار واقعہ ہو کہ ہمارے جو بندے ہر قسم کے نرم و گرم حالات میں ہمارے ہی ساتھ وابستہ رہتے ہیں ہم اسی طرح ان پر اپنا فضل کرتے ہیں اور کریں گے۔ اسمعیل، ادریس اور ذوالکفل علیہم السلام۔
Top