Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 88
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١ۙ وَ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِی الْمُؤْمِنِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَا : پھر ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی وَنَجَّيْنٰهُ : اور ہم نے اسے نجات دی مِنَ الْغَمِّ : غم سے وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُْۨجِي : ہم نجات دیتے ہیں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم اہل ایمان کو نجات دیتے ہیں
باوجودیکہ حضرت یونس حرف مدعا زبان پر نہیں لائے تھے۔ صرف اپنے آپ کو اپنے رب کے آگے ڈال دیا تھا لیکن خدائے علام الغیوب جو پاتال کی فریادوں کو سنتا اور دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے، اس نے ان کے تمام غم و الم کو دور فرما دیا۔ یہاں غم و الم سے صرف وہی غم و الم مراد نہیں ہے جو کشتی والے حادثے کے سبب سے پیش آیا بلکہ وہ غم والم بھی ہے جس کے سبب سے انہوں نے اپنی قوم کو چھوڑا تھا۔ قرآن میں دوسری جگہ اس بات کی تصریح ہے کہ اس حادثہ کے بعد جب انہوں نے از سر نو اپنی قوم کو دعوت دی تو ان کی پوری قوم ایمان لائی اور جو عذاب ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا اس سے خدا نے اس کو نجات دی۔ ایک ٹکڑا سرگزشت کو مطابق حال بنانے کے لئے وکذلک نجی المومنین یہ ٹکڑا اس سرگزشت کو مطابق حال بنانے کے لئے ہے۔ ظاہر ہے کہ ان واقعات کے سنانے سے مقصود داستان سرائی نہیں ہے بلکہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کو یہ اطمینان دلانا ہے کہ حالات کتنے ہی تاریک اور مایوس کن ہوں لیکن دل برداشتہ نہ ہونا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائوں اور فریادوں کو جانتا اور سنتا ہے۔ وہ اپنے باایمان بندوں کو اسی طرح ہر غم و الم سے نجات دیتا ہے جس طرح اس نے یونس کو نجات دی۔ ایک دن آئے گا کہ یہ ساری تاریکیاں، جن میں تم گھرے ہوئے ہو، کافور ہوجائیں گی، حق کا بول بالا ہوگا اور تمہاری قوم ایمان کے نور سے منور ہوجائے گی۔
Top