Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 91
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَالَّتِيْٓ : اور عورت جو اَحْصَنَتْ : اس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرمگاہ (عفت کی) فَنَفَخْنَا : پھر ہم نے پھونک دی فِيْهَا : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَجَعَلْنٰهَا : اور ہم نے اسے بنایا وَابْنَهَآ : اور اس کا بیٹا اٰيَةً : نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور اس (پاک دامن بی بی) پر بھی اپنا فضل کیا جس نے اپنے اندیشہ کی جگہوں کی حفاظت کی تو ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونکی اور اس کو اور اس کے بیٹے کو دنیا والوں کے لئے ایک نشانی بنا دیا
یہ حضرت مریم کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر نہایت تفصیل کے ساتھ سورة مریم میں گزر چکا ہے۔ یہاں ان کا نام نہیں لیا ہے اس لئے کہ ان کی جو صفت مذکور ہوئی ہے وہ ایک ایسی صفت ہے جس کا موصوف و مصداق ان کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ یہ اس صفت کے ساتھ ان کے اختصاص کی دلیل ہے۔ احصنت فرجھا کا مفہوم احصنت فرجھا کو اس کے عام لغوی مفہوم میں نہ لیجیے۔ احصن فوجہ عربی زبان میں اسی طرح کا ایک محاورہ ہے جس طرح بدالثلمۃ وتق الفتق جبرالکر وغیرہ بہت سے محاورات ہیں۔ ان محاورات میں الفاظ کے لغوی مفہوم کا اعتبار نہیں بلکہ اس مفہوم کا اعتبار ہوتا ہے جس کے لئے یہاستعمال ہوئے ہیں۔ احصن فرجہ کا مفہوم قحصن من السوہ اس نے اپنے آپ کو ہر برائی سے پاک رکھا یا خطرہ سے محفوظ رکھا۔ یہ محاورہ عورتوں کے لئے جس سرحاستعمال ہوا ہے اسی طرح مردوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ لفظ فرج کے معنی لغت عرب میں اصلاً ہیں بھی موضع مخافۃ یعنی اندیشہ کی جگہ کے میں اس کے شواہد پیش کرسکتا ہوں لیکن ان سے مستفید صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کی کلام عرب پر نظر ہو۔ کتاب کے عام قارئین ان سے استفادہ نہیں کرسکیں گے۔ حضرت مسیح کے روح ہونے کا مفہوم حضرت مسیح کا استقرار بطن مادر ہیں چونکہ عالم اسباب کے عام ضابطہ سے الگ صرف کلمہ کن کے ذریعہ سے ہوا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی ڈالی ہوئی روح سے تعبیر فرمایا ہے۔ اسی اعتبار سے ان کو اور ان کی والدہ کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی بھی قرار دیا گیا ہے۔ ہم سورة مریم کی تسیر میں ان کے نشانی ہونے کے پہلو واضح کرچکے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے جیسا کہ انجیلوں سے واضح ہے، خود بھی اپنی نسبت یہی فرمایا ہے جو قرآن بیان کر رہا ہے، یہ محض پال کے پیرو عیسائیوں نے اپنی تحریفات کے ذریعہ سے بات بتنگڑ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ہم ان تحریفات پر آل عمران کی تفسیر میں مفصل بحث کرچکے ہیں۔
Top