Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 11
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ اِ۟طْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ اِ۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّعْبُدُ : بندگی کرتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر حَرْفٍ : ایک کنارہ فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَهٗ : اسے پہنچ گئی خَيْرُ : بھلائی ۨ اطْمَاَنَّ : تو اطمینان پالیا بِهٖ : اس سے وَاِنْ : اور اگر اَصَابَتْهُ : اسے پہنچی فِتْنَةُ : کوئی آزمائش ۨ انْقَلَبَ : تو پلٹ گیا عَلٰي : پر۔ بل وَجْهِهٖ : اپنا منہ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا : دنا کا فساد وَالْاٰخِرَةَ : اور آخرت ذٰلِكَ : یہ ہے هُوَ الْخُسْرَانُ : وہ گھاٹا الْمُبِيْنُ : کھلا
اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی بندگی ایک کنارے پر کھڑے ہوئے کرتے ہیں۔ اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچاتب تو ان کا دل خدا پر جمتا ہے اور اگر کوئی آزمائش پیش آگئی تو اوندھے ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی۔ کھلا ہوا خسارہ درحقیقت یہی ہے
مذ بذبین کا کردار ان کٹر مشرکین کا ذکر کرنے کے بعد، جو شرک کی حمایت میں لڑائی ٹھانے ہوئے تھے، اب یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو بکی وقت یزدان اور راہرمن، اللہ اور غیر اللہ، حق اور باطل دونوں سے تعلق باقی رکھنا چاہتے تھے۔ یکسو ہو کر نہ وہ اہل ایمان کے اندر شامل ہونا چاہتے تھے نہ مشرکین کے اندر، وہ ان دونوں صفوں سے الگ کھڑے ہو کر پانی مصلحت اور مفاد کو دیکھتے تھے۔ جس حد تک ان کو مسلمانوں کی ہمنوائی میں فائدہ نظر آتا ان کی ہمنوائی کرتے اور جب دیکھتے کہ شرک اور اہل شرک کی تائید میں فائدہ ہے، ان کے ساتھی بن جاتے۔ اس قسم کے دور رنگے اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر، اس دور میں، مشرکین اور اہل کتاب کے اندر بھی پیدا ہوگئے تھے جو کفر و اسلام دونوں میں سمجھوتے کے خواہشمند تھے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ خدا کی بھی بندگی ہونی چاہئے اور ان اصنام و الہہ کی بھی جن کی عبادت باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ آخر یہ بھی کام آنے والی ہستیاں ہیں تو ان کو کیوں نظر انداز کیا جائے ؟ یہی گروہ ہے جس کی رف سے قرآن میں ترمیم کی تجویز بھی پیش ہوئی تھی جس کا ذکر سورة یونس میں گزر چکا ہے۔ اس طرح کے عناصر اگر مسلمانوں میں داخل ہوئے تو وہ توحید میں یکسو نہیں ہوئے۔ جہاں تک ان کو راہ ہموار نظر آتی وہاں تک تو وہ قافلہ اسلام کا ساتھ دیتے لیکن جب کوئی آزمائش پیش آجاتی تو وہیں لڑکھڑا جاتے اور خدا سے مایوس و بدگمان ہو کر دوسروں کو بولی و مرجع بنا بیٹھتے۔ یہ چیز اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرک ہے اوپر مجادلین کا جو شرک بیان ہوا ہے۔ اس میں اور اسی میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ حقیقت کا نہیں بلکہ صرف مزاج کا فرق ہے۔ مجادلین کے شرک کا مزاج معاندانہ ہے، اس کا مزاج منافقانہ اس فرق کے سوا ان دونوں میں کوئی اور فرق نہی ہے۔ توحید کا تقاضا صرف اس شکل میں پورا ہوتا ہے جب بندہ کلیتہ اپنے آپ کو اپنے رب کی تحویل میں دے دے۔ وہ پھولوں کی سیج پر لٹائے جب بھی راضی رہے اور اگر سر پر آ رہے چلو اوے جب بھی راضی و مطمئن رہے۔ صرف منفعت ہی کے حد تک جو خدا کی بندگی کرنا چاہتا ہے وہ موحد نہیں بلکہ مشرک ہے اور خدا کے ہاں ایسے ابن الوقتوں اور مفاد پرستوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ سرمد نے نہایت دو ٹوک بات کہہ دی۔ سرمد گلہ اختصاری با ید کردیک کارازیں دو کاری با ید کرد یاتن برضائے یامی باید داد یا قطع نظر زیار می جاید کرد ومن الناس من یعبد اللہ علی حرف یہ اسلوب بیان یہاں اظہار تعجب اور اظہار نفرت و کراہت کے لئے ہے اور لفظ عبادت، پرستش اور اطاعت دونوں ہی معنوں پر مشتمل ہے۔ علی حرف یعنی ایک کنارے پر کھڑے ہو کر دور دور سے خدا کی بندگی اور اطاعت میں پوری طرح داخل ہو کر نہیں، جو ادخلوا فی السلم کافۃ کا تقاضا ہے بلکہ مذبذبین بین ذلک لا الی ھولآء ولا الی ھولآ کے مصداق بن کر نہ پوری طرح خدا کی طرف جو ایک حنیف مسلم کی شان ہے اور نہ کفار کی طرح کفر کی حمایت میں برہنہ ہو کر بلکہ ع منہ پھیر کر ادھر کو ادھر کو بڑھا کے ہاتھ۔ فان اصابہ خیر اطمان بہ وان اصابتہ فتنۃ انقلب علی وجھہ فتنہ کے معنی یہاں مصیبت اور آزمائش کے ہیں۔ یہ علی حرف کی وضاحت ہے کہ یہ احمق لوگ خدا کی بندگی صرف اپنے مفاد کے حد تک کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک ہر بات ان کے منشا کے مطابق ہوتی رہے اس وقت تک تو یہ خدا سے راضی و مطمئن رہتے ہیں، لیکن کوئی امتحان پیش آجائے تو پھر یہ اوندھے ہوجاتے ہیں اور خدا کو چھوڑ کر دوسروں کے آستانوں پر جبہ سائی شروع کردیتے ہیں۔ یہ پھولوں کے طالب ہیں لیکن کانٹوں کی خلش برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں حالانکہ خدا کی راہ میں راحتوں کے ساتھ آزمائشیں بھی ہیں اور جب تک کوئی ان آزمائشوں میں پورا نہ اترے خدا کے ہاں اس کی کوئی پوچھ نہیں ہے۔ خیر الدنیا الاخرۃ کا مفہوم خیر الدین و الاخرۃ فرمایا کہ ایسے احمق لوگ دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد کرتے ہیں۔ اگر دنیا میں بندے کو کوئی آزمائش پیش آتی ہے، وہ جان یا مال کے کسی خسارے میں مبتلا کیا جاتا ہے تو اس کے لئے اس خسارہ کے اندر ایک عظیم اخروی منفعت بھی پوشیدہ ہوتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے رب کے فیصلہ پر راضی و مطمئن رہے اور اپنے آپ کو اس کے ٓگے ڈال دے۔ اس طرح کا ہر امتحان بندے کے ایمان کو پختہ اور اس کی اخروی منفعتوں کو ضعافاً مضاعفۃ کرتا ہے لیکن کوئی احمق اگر اس طرح کی کسی آزمائش سے گھبرا کر خدا سے مایوس ہو بدگمان ہو بیٹھے تو اس نے دنیا کا بھی نقصان اٹھایا اور اپنی آخرت بھی برباد کی ذلک ھو الخسران المبین ظاہر ہے کہ اصلی اور کھلا ہوا خسارہ یہی ہے۔ اگر اس دنیا کا کوئی نقصان ہوا تو وہ نقصان نہیں ہے۔ اگر بندے نے اپنا اخروی اجر اس کے عوض میں محفوظ کرا لیا۔ البتہ جس نے اپنی دنیا بھی کھوئی اور اپنی آخرت بھی اس کا خسران خسران مبین ہے۔ ابنائے ز کا کردار ومن الناس من یعبد اللہ علی حرف میں جس گروہ کا کردار بیان ہا ہے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہی کردار ابنائے زمانہ کا ہے۔ آج ہم بھی جو اس شرک کو مٹانے ہی کے لئے مامور کئے گئے تھے، اسی طرح دور دور سے خدا کی بندگی کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کو خدا کی کتاب بھی مانتے ہیں لیکن قانون، تہذیب، معاشرت، معیشت، سیاست ہر شعبہ زندگی میں پیروی دوسروں کے کرتے ہیں۔ قرآن کا مصرف اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ جب کوئی مرے تو کچھ حافظ اس کے لئے قرآن خوانی کر کے اس کو بخشوا دیا کریں۔ اگرچہ اس نے خود کبھی اتفاق سے بھی قرآن کو ہاتھ نہ لگایا ہو ! ! ان کے نزدیک قرآن زندوں کے لئے نہیں بلکہ مردوں کے لئے اترا ہے اور وہ ہدایت کے لئے نہیں بلکہ صرف کبھی کبھی چوم لینے کے لئے ہے۔ خوب بات کہی جس نے کہی ہے کہ یاران عجب انداز دورنگی دارند مصحف بہ بغل دین فرنگی دارند
Top