Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 19
هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ١٘ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ١ؕ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ
ھٰذٰنِ : یہ دو خَصْمٰنِ : دو فریق اخْتَصَمُوْا : وہ جھگرے فِيْ رَبِّهِمْ : اپنے رب (کے بارے) میں فَالَّذِيْنَ : پس وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا قُطِّعَتْ : قطع کیے گئے لَهُمْ : ان کے لیے ثِيَابٌ : کپڑے مِّنْ نَّارٍ : آگ کے يُصَبُّ : ڈالا جائے گا مِنْ فَوْقِ : اوپر رُءُوْسِهِمُ : ان کے سر (جمع) الْحَمِيْمُ : کھولتا ہوا پانی
یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں اختلاف کیا تو جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے آگ کے جامے تراشے جائیں گے۔ ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا پانی بہایا جائے گا
آیت (23-19) دونوں گروہوں کے نبی ﷺ کی تفصیل ایک سوال اور اس کا جواب اب یہ ان دونوں فریقوں کا انجام بیان ہو رہا ہے جن کا ذکر اوپر آیت 17 میں گزرا وہاں صرف اس قدر اشارہ فرمایا تھا کہ ایک دن آئے گا جب اللہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا، ان کے انجام کی تفصیل اس آیت میں بیان نہیں ہوئی تھی۔ ان آیات میں ان کے انجام کی تفصیل آرہی ہے۔ آیت 17 میں کئی گروہوں کا ذکر ہے اور یہاں ھذن خصمن کے الفاظ ہیں۔ اس وجہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس آیت میں انہی گروہوں کی طرف اشارہ ہے تو ان کے لئے مثنیٰ کا صیغہ کیوں استعمال ہوا۔ جمع کا صیغہ کیوں نہیں استعمال ہوا ؟ اساتذ امام ؒ کا رجحان کلام عرب کی روشنی میں اس بات کی طرف معلوم ہوتا ہے کہ اگر فریق دو سے زیادہ ہوں تو ان کے لئے مثنیٰ اور جمع دونوں کے صیغے استعمال ہو سکتے ہیں۔ یہاں اختصموا کے صیغہ جمع سے بھی ان کے خیال کی تائید نکلتی ہے۔ لیکن میرا رجحان جیسا کہ میں نے اوپر اشارا کیا، اس بات کی طرف ہے کہ یہاں اوپر کے گروہوں کا ذکر، ان کے ظاہری تعدد کو نظر انداز کر کے، ان کے اصل حقیقت کے اعتبار سے ہوا ہے۔ فی الظاہر ہر تو یہود، نصاریٰ صائبین، مجوس اور مشرکین الگ الگ گروہ تھے لیکن جہاں تک توحید اور اسلام کی مخالفت کا تعلق ہے اس میں یہ سب مشترک تھے، بلکہ مخالفت کا مزاج جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں، الگ الگ ضرور تھا لیکن اسلام کی مخالفت میں، اپنے اپنے رجحان کے مطابق، سب شریک تھے اس وجہ سے قرآن نے الک فرملۃ واحدۃ کے اصول کے مطابق ان سب کو ایک ہی پارٹی قرار دیا اور ان کے مقابل میں مسلمانوں کو ایک مستقل پارٹی کی حیثیت دی اور اسی حیثیت سے دونوں کے انجام کو بیان فرمایا۔ اختصموا فی ربھم میں اسی بحث وجدال کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں اور ان کی مخالف پارٹیوں کے درمیان درباب شرک و توحید برپا تھا اور جس کا ذکر اوپر آیت 3 اور آیت 8 میں گزر چکا ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ توحید اور شرک کے اس معرکے میں اہل کتاب نے، اہل کتاب ہونے کا دعویٰ رکھتے ہوئے، کھلم کھلا مشرکین عرب کا ساتھ دیا۔ شرک اپنی حقیقت کے اعتبار سے کفر ہے، جزاء اور عمل کی مطابقت فالذین کفروا سے مراد وہ تمام پارٹیاں ہیں جنہوں نے توحید و شرک کی اس جنگ میں شرک کا ساتھ دیا۔ شرک کو کفر سے تعبیر کرنے کی وجہ کی طرف ہم جگہ جگہ اشارہ کرچکے ہیں کہ شرک اپنی اصل حقیقت وغایت کے اعتبار سے کفر ہی سے اسی وجہ سے قرآن میں شرک کو کفر سے بھی تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جو لوگ شرک کو کفر کے مقابل میں اہوں خیال کرتے ہیں ان کا خیال قرآن کے بالکل خلاف ہے۔ جزاء اور عمل کی مطابقت قطعت لھم ثیاب من نار یعنی اس دنیا میں وہ حق کی مخالفت کے جوش میں نفرت، غصہ، حسد اور انتقام کی جس آگ میں جلتے رہے ہیں اس کی پاداش میں آخرت میں ان کے لئے آگ ہی کا جامہ تراشا جائے گا اور ان کے سروں پر کھولتا پانی انڈیلا جائے گا جو ان کے تمام اندرونی اعضاء اور ان کی بیرونی کھالوں کو پگھلا کے رکھ دے گا۔ ولھم مقامع من حدید، کلما ارادو ان یخرجوا منھا من غم اعیدوا فیھا متامع کے معنی ہتھوڑے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی سرکوبی کے لئے لوہے کے ہتھوڑے وجود ہوں گے۔ اگر وہ دوزخ کی کسی آفت سے بھاگنے کی کوشش کریں گے تو انہی ہتھوڑوں سے انکی سرکوبی کر کے اسی آفت میں پڑے رہنے کے لئے ان کو واپس کیا جائے گا۔ من غم کے لفظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ وہاں دوزخ سے بھاگ نکلنے کا تو کوئی تصور بھی نہ کرسکے گا۔ بس زیادہ سے زیادہ اگر کوئی کوشش کرسکے گا تو اس بات کی کرسکے گا کہ ایک آفت کی شدت سے گھبرا کر کسی دوسری آفت کی پناہ ڈھونڈھے لیکن اس کا امکان بھی وہاں نہیں ہوگا۔ دوزخ کے داروغے لوہے کے ہتھوڑوں سے ان کی سرکوبی کریں گے۔ زبان حال کی تعبیر وذوقوا عذاب الحریق یہ زبان حال کی تعبیر ہے۔ یعنی صورت حال خود ان کو پکار کر سنا دے گی کہ اب یہاں سے نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے، اب اسی میں رہو اور جلنے کے عذاب کا مزہ چکھو ! اسی طرح کے مواقع میں جیسا کہ ہم جگہ جگہ اشارہ کرتے آئے ہیں، قیل یا اس کے مہ معنی کوئی لفظ محذوف ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ زبان حال زبان قال سے زیادہ ناطق اور فصیح البیان ہوتی ہے۔ یہاں عربی کے معروف اسلوب کے مطابق معطوف علیہ محذوف ہے۔ یعنی اخوافیھا وذوقوا عذاب الحریق اس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ یہاں عمل اور جزا کی مشابہت کے پہلو پر بھی نگاہ ہے۔ جن لوگوں کو قصر ہلاکت سے نکالنے کے لئے پیغمبر ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں نے اپنا سارا زور صرف کر ڈالا لیکن وہ نہ صرف یہ کہ اس سے نکلنے پر راضی نہ ہوئے بلکہ پیغمبر ﷺ اور آپ ﷺ , کے ساتھیوں کے اس بنا پر دشمن بنگئے کہ انہوں نے ان کو اس سے نکالنے کی کوشش کی تو آخرت میں جب اس کی حقیقت سامنے آئے گی تو اس سے بھاگنے کے کیا معنی ؟ دنیا میں جس چیز سے ان کو اتنا عشق رہا اب اس کا مزہ چکھیں۔
Top