Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 92
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍۙ
وَ : اور مِنَ النَّاسِ : کچھ لوگ جو مَنْ : جو يُّجَادِلُ : جھگڑا کرتے ہیں فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں بِغَيْرِ عِلْمٍ : بےجانے بوجھے وَّيَتَّبِعُ : اور پیروی کرتے ہیں كُلَّ شَيْطٰنٍ : ہر شیطان مَّرِيْدٍ : سرکش
اور لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بغیر کسی علم کے خدا کی توحید کے باب میں کٹی حجتی کرتے اور ہر سرکش شیطان خبیث کی پیروی کرتے ہیں
ایک خاص اسلوب بیان ومن الناس من کے اسلوب بیان میں جب کوئی بات کہی جاتی ہے تو اس سے مقصود عام میں سے خاص کا ذکر ہوتا ہے۔ اگر موقع و محل تحسین کا ہو تو یہ اسلوب تحسین کے لئے بھی آتا ہے اور اگر موقع و محل تفبیح کا ہو، جیسا کہ یہاں ہے تو اس سے تقبیح کی شدت نمایاں ہوگی۔ اگر اس اسلوب کو اپنی زبان میں ادا کرنا چاہیں گے تو کہیں گے کہ لوگوں میں ایسے جاہل، احمق اور بدھو بھی ہیں جو یوں کہتے یا یوں کرتے ہیں۔ یہ خاص طور پر اس گروہ کا ذکر ہے جو آنحضرت ﷺ کی دعوت، خاص طور پر توحید کی مخالفت میں، ہر وقت مناظرہ و مجادلہ کے لئے آستینیں چڑھائے رہتا تھا۔ اس طرح کے لوگ کسی معاشرہ میں بھی تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا ایک خاص طائفہ ہی ہوتا ہے۔ ان کا علم بھی بس سنی سنائی اور ٹی رٹائی باتوں پر مبنی ہوتا ہے لیکن زبان درازی میں طاق اور لاف زنی میں مشاق ہوتے ہیں اس وجہ سے شاطر لوگوں کے ایجنٹ بن کر بےچارے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی خدمت خوب انجام دیتے ہیں۔ مجادلہ بغیر علم کے یجادل فی اللہ بغیر علم فی اللہ سے مراد فی توحید اللہ ہے اس لئے کہ کفار عرب خدا کے منکر نہیں تھے۔ وہ صرف خدا کی توحید کے منکر تھے اور توحید کے انکار کے لئے ان کے پاس دین آباد کی اندھی تقلید کے سوا کوئی دلیل نہیں تھی۔ آگے آیت 8 میں وضاحت آئے گی کسان کے پاس اللہ کے دین کا کوئی علم تھا، نہ عقل و فطرت کی کوئی ہدایت نہ کوئی قرآن و کتاب، بس یونہی، بغیر کسی دلیل اور علم کے، خدا کی توحید کے بارے میں مناظرہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ پیشہ ور مناظروں کے پاس زبان درازی کے سوا اور کوئی علم نہیں ہوتا۔ یہ صرف اپنے فعال و مفصل لیڈروں سے الہام حاصل کرتے ہیں اور گلی گلی میں ان کا ڈھول پیٹتے پھرتے ہیں۔ شیطان سے مراد شیاطین جن و انس، دونوں ہیں ویتبع کل شیطن مرید شیطان سے مراد شیاطین جن و انس دونوں ہیں۔ لفظ کل اس مفہوم کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ شیاطین جن اور شیاطین انس دونوں میں بڑا گہرا گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ شیاطین جن، شیاطین انس ہی کو اپنی فتنہ انگیزیوں کا ذریعہ بناتے ہیں۔ شیاطین جن القا کرتے ہیں اور شیاطین انس ان کے القاء کو مختلف ناموں سے ایک فلسفہ بناتے اور پھر اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لئے اس کو تمام ذرائع سے پھیلاتے ہیں۔ قرآن نے اس طرح کے تمام ائمہ ضلالت کے لئے شیطان ہی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مرید کے معنی مرید کے معنی شریر و خبیث اور متعری عن الخیر یعنی لاخیرے کے ہیں۔ شیطین خواہ شیاطین جن ہوں یا شیاطین انس، ظاہر تو ہوتے ہیں ہمیشہ خیر خواہ، ناصح، ہمدرد اور بہی خواہ قوم و وطن کے بھیس میں لیکن درحقیقت وہ نہایت ہی خبیث و شریر اور بالکل لاخیرے ہوتے ہیں۔ وہ خدا کے بندوں کو خدا کی راہ سے ہٹا کر اپنی ڈگر پر ڈال دیتے ہیں اور جو لوگ ان کے نقیب و پائوش بن کر ان کے فتنوں کے پھیلانے میں ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں ان کو اپنے سمیت جہنم کا فرزند بنا دیتے ہیں۔ فرمایا کہ جو لوگ خدا کی توحید کے بارے میں ہمارے پیغمبر سے مباحثے اور مناظرے کر رہے ہیں وہ ایسے ہی خبیث اور لاخیرے شیطانوں کے پیرو ہیں۔ قیامت کے ذکر کے ساتھ توحید کے ذکر کی حکمت قیامت کے ذکر کے ساتھ یہ معاً توحید کا ذکر اس لئے ہے کہ درحقیقت قیامت کی ساری اہمیت توحید کے ساتھ ہی ہے۔ اگر خدا کے ساتھ اس کے شرکاء و شفعاء کا وجود تسلیم کرلیا جائے تو قیامت کی ساری اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی روز عدالت ہے تو اس سے کیا اندیشہ ہوسکتا ہے اگر ایسے شرکاء و شفعاء موجود ہیں جو اپنے زور و اثر یا سعی و سفارش سے اپنے نام لیوائوں کو خدا کی پکڑ سے بچا سکتے ہیں ! اسی وجہ سے قرآن میں قیامت اور رد شرک دونوں مضمون ہمیشہ ساتھ ساتھ بیان ہوتے ہیں تاکہ لوگوں پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح کردی جائے کہ خدا کی پکڑ سے کوئی بھی کسی کو بچانے والا نہیں بن سکے گا۔ سب کا معاملہ اسی کے حضور میں پیش ہوگا اور وہی تنہا ہر ایک کا فیصلہ فرمائے گا۔
Top