Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 55
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ
وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ رہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ : میں مِرْيَةٍ : شک مِّنْهُ : اس سے حَتّٰى : یہاں تک تَاْتِيَهُمُ : آئے ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک اَوْ يَاْتِيَهُمْ : یا آجائے ان پر عَذَابُ : عذاب يَوْمٍ عَقِيْمٍ : منحوس دن
اور یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے برابر اس کی طرف سے شک ہی میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر اچانک قیامت آدھمکے یا ایک منحوس دن کا عذاب آجائے
آیت 57-55 مخالفین کو وعید اوپر اہل علم و ایمان کی تعریف میں فرمایا کہ مخالفین ان کے اندر اس بات کو راسخ کرتی ہیں کہ پیغمبر جو وعدو وعید سنا رہے ہیں وہ بالکل حق ہے۔ اب فرمایا کہ رہے یہ مکذبین تو وہ اس وعدو وعید کی طرف سے اسی طرح شک میں مبتلا رہیں گے جس طرح آج ہیں۔ یہ تو اسی وقت مانیں گے جب ان پر یا تو قیامت اچانک آدھمکے یا کسی ہولناک منحوس دن کا عذاب ان پر آجائے۔ عقیم بانجھ کو کہتے ہیں۔ قالت عجوز عقیم (ذاریات 29) (وہ بولی کہ میں تو ایک بانجھ ہوں) یہیں سے اس کے اندر بےفیض اور منحوس کا مفہوم پیدا ہوا اور اس کا اطلاق اس طوفانی ہوا پر بھی ہوا جو تباہی تو قیامت کی مچا دے لیکن اس کے اندر نفع کا کوئی پہلو نہ ہو۔ چناچہ قوم عاد پر جو عذاب آیا اس کے لئے قرآن نے وریح عقیم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ”وفی عاد اذارسلنا علیھم الریع العقیم“ (ذاریات :41) (اور ان کے لئے قوم عاد کے اندر بھی درس عبرت ہے جب تک ہم نے ان پر منحوس ہوا بھیجی) سورة قمر آیت 19 میں یوم نحس کی ترکیب ھبی استعمال ہوئی ہے۔ ان کی تفصیلات ان کے محل میں دیکھیے۔ الملک یومیذ للہ یحکم بینھم فرمایا کہ اگر یہ لوگ ظہور قیامت ہی کے منتظر ہیں تو اس بات کو یاد رکھیں کہ اس دن سارا اختیار و اقتدار صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کا ہوگا۔ اس دن نہ ان کی جمعتیں اور پارٹیاں ان کے کچھ کام آئیں گی اور نہ ان کے مفروضہ شرکاء و شفعاء اور وہ دن جزاء و سزا کے فیصلہ اور عدل کے ظہور کا ہوگا نہ کہ سعی و عمل کا اس دن اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا اور ہر ایک اپنے عمل کے نتائج سے دوچار ہوگا۔ فالذین امنوا و عملوا الصلحت فی جنت النعلم والذین کفروا وکذبوا بایتنا فائولئک لھم عذاب مھین یہ اس فیصلہ کا اعلان ہے جس کا اوپر والے ٹکڑے میں ذکر ہوا ہے۔ فرمایا کہ اس دن جو ایمان و عمل صالح والے لوگ ہیں وہ نعمت کے باغوں میں داخل ہوں گے اور ان جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری باتوں کی تکذیب کی ہے ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔ ذلیل کرنے والا عذاب اس لئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو خدا و رسول کے پیش کردہ حق سے بھی بالات تر سمجھا جو بدترین استکبار ہے اس اسکتبار کی بنا پر وہ مستحق ہیں کہ آخرت میں ان کو صرف عذاب ہی نہ دیا جائے بلکہ وہ عذاب دیا جائے جو ذلیل کرنے والا بھی ہو۔ یہ امر محلوظ رہے کہ اس سزا کی سنگینی دوچند بلکہ وہ چند ہوجاتی ہے جو تعذیب کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تو وہین و تذلیل کی پھٹکار بھی رکھتی ہو۔
Top