Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 59
لَیُدْخِلَنَّهُمْ مُّدْخَلًا یَّرْضَوْنَهٗ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَلِیْمٌ حَلِیْمٌ
لَيُدْخِلَنَّهُمْ : وہ البتہ انہیں ضرور داخل کریگا مُّدْخَلًا : ایسے مقام میں يَّرْضَوْنَهٗ : وہ اسے پسند کریں گے وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَعَلِيْمٌ : البتہ علم والا حَلِيْمٌ : حلم والا
وہ ان کو ایسی جگہ داخل کرے گا جس سے وہ راضی و مطمئن ہوں گے اور بیشک اللہ علیم و حلیم ہے
59۔ 60 مہاجرین کے لئے عظیم بشارت فرمایا کہ ان کو ایسی جگہ داخل کرے گا جہاں پہنچ کر وہ نہال ہوجائیں گے۔ یرضونہ کا لفظ ہے تو نہایت مختصر سا لیکن اس کے اندر معانی کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ یعنی خدا کی خاطر جو بندہ اپنے گھر اور وطن سے نکلتا ہے، اگر اسی راہ میں اس کو موت آجاتی ہے تو وہ اطمینان رکھے کہ خدا اس کو ایسی جگہ داخل کرے گا جہاں اس کی ساری توقعات ہی پوری نہیں ہوجائیں گی بلکہ وہ کچھ اس کو ملے گا جس کا اس جہان میں وہ کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ وان اللہ لعلیم حلیم یعنی ہمارے بندے پورا اطمینان رکھیں کہ اس دنیا میں ہماری خاطر اعدائے حق کے ہاتھوں وہ جو کچھ جھیل رہے ہیں ہم اس سے بیخبر نہیں ہیں ہم ہر چیز سے واقف ہیں۔ لیکن علیم کے ساتھ ساتھ ہماری صفت حلیم بھی ہے۔ اس وجہ سے ہم اپنے دشمنوں کو جلدی نہیں پکڑتے بلکہ ان کو اصلاح حال کا پورا موقع دیتے ہیں۔ لیکن وہ یاد رکھیں کہ ہمرے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے۔ خدا کے ہاں دیر سے اندھیر نہیں ذلک ومن عاقب بمثل ماعوقب بہ ثم بغنی علیہ لینصرنہ اللہ ان اللہ لعفو غفوراٌ (60) ایک اہم اعلان یہ ذلک جس طرح آیت 30 میں گزر چکا ہے پورے جملہ کا قائم مقام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بات جو کہی گی ہے کوئی سرسری بات نہیں ہے بلکہ نہایت اہم حقیقت بیان ہوئی ہے۔ اس کو دوست اور دشمن اچھی طرح سن لیں۔ مزید برآں اب یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ مظلوم مسلمان اگر اپنے جان و مال کی مدافعت میں برابر سرابر کا کوئی اقدام کریں تو انکو اس کا حق ہے۔ ان کو اس کی اجازت دی جاتی ہے اور اگر اس کے بعد ان پر کوئی مزید تعدی کی گئی تو ان کے اعداء یاد رکھیں کہ خدا اپنے بندوں کیپشت پر ہے اور وہ ان کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ومن عاقب بمثل ماعوقب بہ میں عوقب بہ مماثلت کے اسی اسلوب پر ہے جو دناھم کمادانوا یا جزاء سیۃ سیئۃ مثلھا وغیرہ میں محلوظ ہے۔ ثم بغی علیہ میں اس حقیت کا اظہار ہے کہ اگر مسلمان کے کسی مدافعانہ اقدام سے چڑ کر کفار نے ان پر مزید تعدی کی کہ ان کا حوصلہ پست کردیں کہ وہ آئندہ اپنے عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے کوئی جرأت نہ کرسکیں تو کفار یاد رکھیں اور مسلمان مطمئن رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہرگز ایسا نہیں ہونے دے گا بلکہ وہ اپنے بندوں کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ضرور مدد فرمائے گا کے اجمال کے اندر جو تفصیل پوشیدہ ہے، اس کی شہادت بعد کے واقعات نے دی اور تاریخ اس کی گواہ ہے یہ امر محلوظ ہے کہ یہ بشارت مسلمانوں کو ہجرت کے وقت دی گی تھی۔ بعد میں جب مسلمان مدینہ پہنچ کر ایک طاقت بن گئے تو یہی بات نہایت واضح الفاظ میں کہہ دی گی جو آیات 40-39 میں گزر چکی ہے۔ ان پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ عفو و غفور کی صفات کے حوالہ کا ایک خاص محل ان اللہ لعفو غفور کا یہاں ایک خاص محل ہے یہ بات، جیسا کہ میں نے اشارہ کیا، بالکل ہجرت کے وقت فرمائی گی تھی۔ اس وجہ سے امکان تھا کہ کفار کے ہاتھوں ستائے ہوئے مسلمان جوابی کارروائی کے طور پر کوئی عاجلانہ قدم اٹھاویں۔ درآنحالیکہ ابھی اس کے لئے موزوں وقت نہیں آیا تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات عفو، و غفور کی یاد دہانی فرما دی کہ ہرچند تمہیں اپنی جان، اپنے مال اور اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کا حق ہے اور خدا تمہاری پشت پر ہے لیکن ہم جس طرح لوگوں کی تعدیوں کے باوجود عفو و مغفرت سے کام لیتے ہیں اسی طرح چندے تم بھی عفو و درگزر سے کام لو۔ ان سرکشوں سے نمٹنے کا وقت بس آ ہی رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا رب اپنی صفات کا عکس تمہارے اندر بھی دیکھنا چاہتا یہ۔
Top