Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 109
اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَرِيْقٌ : ایک گروہ مِّنْ عِبَادِيْ : میرے بندوں کا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے فَاغْفِرْ لَنَا : سو ہمیں بخشدے وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم فرما وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہترین الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
میرے بندوں کی ایک جماعت ان لوگوں کی تھی جو دعا کرتے تھے کہ اے ہمارے رب ! ہم ایمان لائے تو تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما اور تو بہترین رحم فرمانے والا ہے
111-109 غربائے مسلمین کی دلداری یہ اس غیرت کا بیان ہے جس کے سبب سے خدائے غیور ان اشتقیار کو بات کرنے سے روک دے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اب تم میرے آگے زبان نہ کھولو، تم وہ شقی اور بدبخت لوگ ہو کہ جب میرے بندوں کی ایک جماعت میرے آگے ربنا امنافا غفرلنا دارھمنا وانت خیر الرحمین کی دعا کرتی تھی تو تم نے ان کو مذاق بنا رکھا تھا اور اس شغل مذاق میں اس طرح تم منہمک رہے کہ تمہیں یہ بات یاد بھی نہیں رہی کہ کبھی مجھ سے بھی تمہیں سابقہ پڑنے الا ہے اور تم پوری جسارت کے ساتھ ان کی ہنسی اڑاتے رہے تو آج میں نے ان کی صبر و استقامت کا ان کو صلہ دیا اب وہ فائز المرام ہیں اور تم یہ بھاڑ جھونکو اور اسی میں جلو ! فریق من عبادی، میں لفظ فریق، اس زبان کی طرف شارہ کر رہا ہے کہ یہاں اس سے مراد خاص طور پر غربائے مسلمین ہیں جو اپنی غریبی اور بےکسی کے سبب سے متمردین قریش کے ظلم و ستم اور ان کے مذاق و استہزاء کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ فرمایا کہ وہ تم ہم سے مغفرت اور رحمت کی دعا کتے تھے اور تم ان کے مذاق و استہزاء کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ فرمایا کہ وہ تو ہم سے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے تھے اور تم ان کی دعا اور نماز کو اپنی رعونت کے سبب سے ایک شغل تفریح بنائے ہوئے تھے۔ سخرتی اس شخص یا چیز کو کہتے ہیں جس کو ایک اضحوکہ اور مذاق بنایا جائے۔ کسی کو مذاق بنانا بجائے خود ایک بہت بڑی رعونت ہے اور یہ رعونت وہ چند ہوجاتی ہے اگر کوئی شقی اس کی دعا اور نماز کا مذاق اڑائے اس لئے کہ اس صورت میں وہ صرف اسی کا مذاق نہیں اڑاتا بلکہ خود خدا کا بھی مذاق اڑاتا ہے۔ حتی انسوکم ذکری یعنی اس شغل تفریح میں تم ایسے منہمک رہے کہ کبھی تمہیں یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا کہ کوئی تمہارا خدا بھی ہے جو تمہاری ان حرکتوں کو، جو تم اس کے ذاکر و شاغل اور صابر و شاکر بندوں کے ساتھ کر رہے ہو، دیکھ رہا ہے اور ایک دن وہ ضرور ان میں سے ایک ایک چیز کا انتقام لے گا۔ انی جزیتھم الیوم بما صبروا انھم ھم الفآئزون یعنی اب آنکھیں کھول کر دیکھ لو، وہ چیز تمہارے سامنے موجود ہے جس کو تم نے بھلائے رکھا۔ تمہارے تمام ظلم و ستم اور مذاق و تمسخر کے علی الرغم میرے جو بندے میری بندگی پر جمے رہے میں نے آج ان کو ان کی استقامت کا بھرپور صلہ دے دیا۔ انھم ھم الفائزون یہ اس صلہ کی تفصیل ہے کہ وہی کامیاب ہونے والے بنے جس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ ان کا مذاق اڑانے والے نامراد ہوئے یہاں اس سورة کی پہلی آیت قد افلح المومنون الذین ھم فی صعلوتھم خشعون کو ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ جس بات سے سورة کا آغاز ہوا تھا اب اسی پر سورة کا اختتام ہو رہا ہے۔ یہ عود علی الیدء کا اسلوب قرآن میں بہت استعمال ہوا ہے اور نظم قرآن کے نہایت واضح دلائل میں سے ہے۔ غور کیجیے، ان آیات کا ان غربائے مسلمین پر کیا اثر پڑا ہوگا جو اس دور میں متکبرین کے ظلم اور تہتک کا ہدف بنے ہوئے تھے انکے صبر و عزیمت کو رب غیور کی اس دلداری سے کتنی غذا اور قوت حاصل ہوئی ہوگی !
Top