Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 23
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰى قَوْمِهٖ : اس کی قوم کی طرف فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : کیا تو تم ڈرتے نہیں
اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا تو اس نے دعوت دی کہ اے میری قوم کے لوگو، اللہ ہی کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تم اس کے غضب سے ڈرتے نہیں !
آگے کا مضمون …… آیات 50-23 آگے حضرت انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے مکذبین کی تاریخ کا اجمالی حوالہ ہے اور مقصود اس سے تاریخ کی روشنی میں اس حقیقت کو واضح کرنا ہے جو یہاں زیر بحث ہے۔ یعنی اہل ایمان کی فلاح اور حق کی تکذیب کرنے والوں کو اس ضمن میں سنت الٰہی کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کا انجام ہے تو بہرحال ابدی خسران لیکن اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اہل حق کی بھی آزمائش کرتا ہے۔ اس آزمائش کے تقاضے سے اہل باطل کو بھی کچھ عرصہ ڈھیل دی جاتی ہے۔ وہ اس ڈھیل کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں حالانکہ یہ چیز ان کی کامیابی نہیں بلکہ ان کے لئے موت کا پھندا بنتی ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے مکذبین کا حوالہ پچھلی سورة کی آیات 45-42 میں بھی گزر چکا ہے لیکن بہت اجمال کے ساتھ۔ اس میں فی الجملہ تفصیل ہے لیکن نام کے ساتھ ذکر انبیائے اولین میں سے صرف حضرت نوح کا اور آخری انبیاء میں سے حضرت موسیٰ حضرت ہارون اور حضرت مسحی (علیہم السلام) کا ہے۔ بقیہ انبیاء کا نام لئے بغیر صرف ان کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ ایک حسین گریز یہاں ایک نہایت ہی حسین وبلیغ تخلیص ہے جس کو ہماری شاعری کی اصطلاح میں گریز کہتے ہیں اوپر ربوبیت کے شواہد سے جزا و سزا پر جو استدلال کیا ہے وہ وعلیھا وعلی الفلک تحملون (اور تم ان چوپایوں اور کشتیوں پر سوار کئے جاتے ہو) پر ختم ہوا ہے۔ اب آگے جب تاریخی شواہد کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلے حضرت نوح کے واقعہ کو لیا جو تاریخی تقدم کے اعتبار سے بھی رسولوں کی سرگزشت کا سرنامہ ہے اور خاص طور پر کشتی ہی کو ان کی اور ان کے ساتھیوں کی نجات کا اللہ تعالیٰ نے ذریعہ بنایا۔ کشتی کے ذکر کے بعد اس کشتی والے واقعہ کا ذکر اس طرح آگیا ہے گویا بات میں سے بات پیدا ہوگئی ہے۔ حضرت نوح کی سرگزشت ایک خاص پہلو سے تورات اور قرآن دونوں میں رسولوں کی تاریخ کا آغاز حضرت نوح ہی سے ہوتا ہے۔ آپ کی سرگزشت کے مختلف پہلو پچھلی سورتوں میں بیان ہوچکے ہیں۔ یہاں جس مقصد سے یہ سرگزشت بیان ہو رہی ہے وہ جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، یہ ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا اس دنیا کو پیدا کر کے اس سے بےتعلق ہو بیٹھا ہے وہ خدا کو بالکل غلط سمجھے ہیں۔ خدا نے ہمیشہ اس کی مادی پرورش کا بھی انتظام فرمایا ہے اور اس کی روحانی و اخلاقی اصلاح کے لئے اپنے رسول بھی بھیجے۔ جن لوگوں نے ان رسولوں کی تکذیب کی خدا نے اتمام حجت کے بعد، ان کو ہلاک کردیا اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کو نجات و فلاح بخشی۔ اس دنیا کے ساتھ خدا کا یہ معاملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بالآخر وہ ایک ایسا دن بھی لائے گا جس میں وہ نیکو کاروں اور بدکاروں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا دے گا۔ افلاتتقون کے بعد اس کا مفعول مخذوف ہے۔ یعنی کیا تم لوگ خدا کے قہر و غضب سے ڈرتے نہیں کہ اس کی خدائی میں دوسروں کو شریک کر کے ان کی بندگی کرتے ہو۔ یہ تو کھلی ہوئی بغاوت ہے جس پر ہر لمحہ تم اس کے عذاب کے سزاوار ہو۔
Top