Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 67
مُسْتَكْبِرِیْنَ١ۖۗ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ
مُسْتَكْبِرِيْنَ : تکبر کرتے ہوئے بِهٖ : اس کے ساتھ سٰمِرًا : افسانہ کوئی کرتے ہوئے تَهْجُرُوْنَ : بیہودہ بکواس کرتے ہوئے
گھمنڈ کرتے ہوئے گویا کسی افسانہ گو کو چھوڑ رہے ہو !
متکبرین بہ سمراتھجرون (67) آیت 67 کی تالف اور اس کی تاویل اس آیت کی تالیف کلام اور اس کی تاویل میں ہمارے مفسرین کو بڑا اضطراب پیش آیا ہے۔ ان کے اقوال نقل کرنے اور ان پر تنقید کرنے میں بڑی طوالت ہوگی اس وجہ سے ہم صرف اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ استکبار کے بعد اب اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ لفظ یہاں استہزاء کے مفہوم پر مضمن ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ بہ کی ضمیر مجرور کا مرجع مفسرین کے ایک گروہ نے لفظ آیات کو قرار دیا ہے جو اوپر والی آیت میں مذکور ہے اور اس کو علی سبیل التاویل ذکر اور کتاب کے مفہوم میں لیا ہے۔ اگرچہ یہ بات عربیت کے خلاف نہیں ہے۔ آیت، کتاب، ذکر اور رسول متبادل الفاظ کی حیثیت سے قرآن میں استعمال ہوئے ہیں لیکن ہمارے نزدیک اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ بسا اوقات ضمیر کا مرجع یا اسم اشارہ کا مشار الیہ الفاظ میں مذکور نہیں ہوتا بلکہ فخرائے کلام سے متبادر ہوتا ہے اور اس کا تعین قرینہ کرتا ہے۔ قرآن اور کلام عرب دونوں میں اس کی نظریں موجود ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہیں اور آخری گروپ کی سورتوں میں اس کی نہایت بلیغ مثالی ائٓیں گی۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک اس ضمیر کا مرجع رسول ہے جس کی تکذیب اور جس کے ساتھ استہزاء کے عواقب اس سورة میں زیر بحث ہیں اور جس کی تلاوت آیات قدکانت ایتی تتلی علیکم میں مذکور ہے۔ سامر کے معنی افسانہ خواں اور قصہ گو کے ہیں۔ یہ تھجرون کا مفعول بھی ہوسکتا ہے اور اگر اس کو ضمیر مجرود سے حال مانی جب بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ مجرور سے حال پڑنے کی متعدد مثالیں اس کتاب میں ہم پیش کرچکے ہیں۔ تھجرون اپنے بالکل معروف معنی (تم چھوڑتے تھے) میں استعمال ہوا ہے۔ اس کو اس کے معروف معنی سے ہٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اس تالیف کلام پر آپ کو اطمینان ہے تو لاتجروالیوم سے لے کر یہاں تک جو بات فرمائی گئی ہے وہ سادہ الفاظ میں یوں ہے کہ اب روئو یا چلائو، اس سے کچھ حاصل نہیں، اب نہ ہمارے ہاں تمہاری کچھ شنوائی ہے اور نہ کوئی دوسرا ہی تم کو ہم سے چھڑا سکتا ہے۔ ہماری خوشنودی حاصل کرنے کا وقت وہ تھا جب ہمارے رسول کی زبانی تم کو ہماری ٓیات سنائی جا رہی تھیں لیکن اس وقت تمہاری بد دماغی کا یہ حالت ھا کہ تم نہایت تکبر کے ساتھ، اس کا مذاقاڑاتے ہوئے، اس طرح اس سے کتراتے تھے گویا وہ کوئی افسانہ گو اور قصہ خاں ہے جس کی بات تمہارے نزدیک درخور اعتناء نہیں۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ نبی ﷺ کے مترفین کو پچھلی قوموں کی جو سرگزشتیں سناتے ان سے وہ سبق لینے کے بجائے آپ کا مذاق اڑاتے اور اپنے عوام کو ورغلاتے کہ اس شخص کے پاس ہے کیا ! پچھلی قوموں کی کچھ حکایات ہیں جن کو یہ سناتا پھر رہا ہے ! ان ھوالا اساطیر الاولین
Top