Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 2
اِ۟لَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا
الَّذِيْ لَهٗ : وہ جس کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَمْ يَتَّخِذْ : اور اس نے نہیں بنایا وَلَدًا : کوئی بیٹا وَّلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهُ : اس کا شَرِيْكٌ : کوئی شریک فِي الْمُلْكِ : سلطنت میں وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کیا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے فَقَدَّرَهٗ : پھر اس کا اندازہ ٹھہرایا تَقْدِيْرًا : ایک اندازہ
وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور جس نے اپنے لئے کوئی اولاد نہیں بنائی اور اس کی بادشاہی میں کوئی اس کا ساجھی نہیں اور اس نے ہر چیزکو پیدا کیا اور اس کا ایک خاص اندازہ ٹھہرایا
قرآن کسی سائل کی درخواست نہیں بلکہ خالق کائنات کا فرمان واجب اور دعان ہے۔ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی فیض بخشی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اب یہ اپنی توحید اور کبریائی دیکتائی کا حوالہ دیا ہے جس سے مقصود اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ جس نے خلق کے انذار و تذکیر کے لئے یہ کتاب اتاری ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، اس وجہ سے کوئی اس کتاب کو کسی سائل کی درخواست نہ سمجھے بلکہ یہ اس کائنات کے بادشاہی حقیقی کا فرمان واجب الاذعان ہے۔ اگر اس کی تکذیب کی گئی تو جس نے اس کو اتارا ہے وہ اس کی تکذیب کا اتنقام لنیے کے لئے کوئی کمزور ہستی نہیں ہے۔ وہ اس کا انتقام لے گا اور جب انتقام لے گا تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہ بن سکے گا۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ ولم یتخذ ولدولم یکن لہ شریک فی الملک یعنی اگر کسی نے اس کے بیٹے بیٹیاں فرض کر کے ان کی عبادت شروع کر رکھی ہے اور اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ اس کو خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے تو وہ اس خیال خام کو دل سے نکال دے۔ نہ خدا کے کوئی بیٹی ہے نہ بیٹا، نہ اس کی بادشاہی میں کوئی اور ساجھی ہے۔ وہ اپنی بادشاہی کا یک و تنہا مالک ہے، وہ کسی مددگار و شریک کا محتاج نہیں ہے۔ خدا کی یکتائی کی دلیل وختن کل شیء فقدرہ تقدیراً یہ اس کی توحید ویکتائی کی دلیل بیان ہوئی ہے کہ اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کے لئے ایک اندازہ ٹھہرا دیا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کے ٹھہرائے ہوئے اندازہ سے سر موکم و بیش یا آگے یچھے ہو سکے۔ انسان کو پیدا کیا تو اس کے لئے زندگی اور موت کی ایک حد معین کردی کوئی اس حد سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ابرو ہوا سب اس کے مقرر کئے ہوئے حدود کے پابند ہیں۔ سورج اور چاند، جن کو نادانوں نے معبود بنا کر پوجا۔ ایک مخصوص محور و مدار کے ساتھ لگے بندھے ہوئے ہیں اور اپنے وجود سے شہادت دے رہے ہیں کہ وہ ایک خدائے عزیز و حکیم کے پیدا کئے ہوئے اور اسی کے مقرر کئے ہوئے حدود وقیوم کیپابند ہیں۔ اسی حقیقت کی طرف دوسرے مقام پر میں یوں توجہ دلائی ہے۔ والشمستجری لمستق تھا ط ذلک تقدیر العزیز العلیم (یٰسین :38) اور سورج اپنے ایک معین مدار پر گردش کرتا ہے۔ یہ خدائے عزیز وعلیم کی منصوبہ بندی ہے ! اس سے زیادہ وسیع الفاظ میں یہی بات یوں فرمائی گئی ہے۔ وان من شیء الاعندنا خزآئنہ ومانزلہ الا بقدر معلوم (الحجر :21) اور ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں لیکن ہم ان کو ایک خاص اندازے ہی کے ساتھ اتارتے ہیں۔
Top