Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 21
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہم سے ملنا لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارے گئے عَلَيْنَا : ہم پر الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ نَرٰي : یا ہم دیکھ لیتے رَبَّنَا : اپنا رب لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا : تحقیق انہوں نے بڑا کیا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں وَعَتَوْ : اور انہوں نے سرکشی کی عُتُوًّا كَبِيْرًا : بڑی سرکشی
اور جو ہمارے حضور پیشی کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے یا ہم اپنے رب ہی کو دیکھتے ! انہوں نے اپنے جی میں اپنے کو بہت بڑا سمجھا اور بڑا اکڑ دکھائی !
آیت 22-21 متکبیرن کے استکبار پر ایک ضرب الذین لایربھون الہ اء نا سے قرآن میں متکبرین کے اس گروہ کو تعبیر کیا گیا ہے جو خدا کے حضور پیشی کے اندیشے سے بالکل نچنت اور بےخوف تھا۔ اس گروہ کا جہل و غرور اور اس کا گھمنڈ دوسرے کفار و معاندین سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھا اس وجہ سے اس کا ذکر الذین کفروا کے لفظ سے نہیں ہوا بلکہ ایسی صفت کے ساتھ ہوا ہے جس سے اس کا غرور پوری طرح بےنقاب ہو سکے۔ اس گروہ کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر محمد ﷺ کے پاس خدا کا فرشتہ آتا ہے، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے، تو آخر ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے یا ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ خود خدا بےحجاب ہو کر سامنے آئے اور ہم اس کو دیکھیں۔ یہ مطالبہ ظاہر ہے کہ وہ لوگ کرسکتے تھے جو بالکل ہی سر پھرے، مغرور اور ساتھ ہی پرے سرے کے احمق ہوں، اس وجہ سے ان کی اس احمقانہ بات کا جواب دینے کے بجائے ان کے اس غرور پہ ضرب لگائی۔ فرمایا کہ ان لوگوں نے بڑی اکڑ دکھائی کہ خدا اور فرشتوں کو دیکھنے کا مطالبہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کو اندازہ نہیں کہ خدا اور ان فرشتوں کا دیکھنا کیا ہوتا ہے ! خدا تو درکنار جب وہ دن آئے گا جس دن یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو وہ ان کے لئے کوئی خوش آئند دن نہیں ہوگا بلکہ اس دن پناہ ! پناہ ! پکار اٹھیں گے ! آگے اس دن کی ہولناکی کی مزید تفصیل آرہی ہے۔ حجراً معجوراً کا مفہوم حجرا معجوراً کے ایک معنی تو سخت پردہ اور اوٹ کے ہیں۔ اس معنی میں یہ لفظ اسی سورة کی آیت 53 میں آگے آئے گا۔ دوسرے یہ استعاذہ کے الفاظ سے ہے اور سیبویہ کی رائے یہ ہے کہ جب یہ اس مفہوم میں آتا ہے تو بالکل اسیشکل میں استعمال ہوتا ہے اور فعل محذوف سے منصوب ہوتا ہے جس طرح معاذ اللہ استعمال ہوتا ہے۔
Top