Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 64
وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور جو يَبِيْتُوْنَ : رات کاٹتے ہیں لِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے لیے سُجَّدًا : سجدے کرتے وَّقِيَامًا : اور قیام کرتے
اور جو راتیں اپنے رب کے آگے سجدہ اور قیام میں گزارت یہیں
آیت 66-64 عباد الرحمٰن کی خلوت کی زندگی اوپر کی آیت میں ان کی جلوت کی زندگی کے ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ سا آیت میں ان کی خلوت کی زندگی پر روشنی ڈالی گی ہے۔ فرمایا کہ وہ اپنی راتیں اپنے رب کے آگے سجود و قیام میں گزارتے ہیں۔ سجد او قیاماً کے اسلوب بیان سے جو شوق و اضطراب نمایاں ہو رہا ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے ظاہر کہ اس سے صرف فرض نمازیں مراد نہیں ہیں بلکہ یہ تہجد کے سجود و قیام کی شب بیداریوں اور بےقراریوں کی تعبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی راتیں نہ عیش کدوں میں گزارتے اور نہ نرم و گرم بستروں میں دنیا و عاقبت سے بےفکر ہو کر سوتے بلکہ راتوں میں اٹھ اٹھ کر عذاب جہنم سے بچائے جانے کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ ان عذابھا کان غراماً ، غرام لازم ہوجانے والی چمٹ جانے والی چیز کو کہتے ہیں۔ یہ ٹکڑا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے اس اندیشے کی تائید و تصدیق کے طور پر ہے جس کے باعث وہ اپنی راتیں اس بےچینی و بےقراری میں گزارتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس طرح عذاب جہنم سے پناہ مانگتے ہیں تو یہ بالکل صحیح اور نہایت عاقبت اندیشانہ کام کر رہے ہیں اس لئے کہ عذاب جہنم ایک ایسی چمٹ جانے والی چیز ہے کہ اس سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہوگا۔ اس سے بچنے کے لئے جو کچھ کیا جاسکتا ہے اسی زندگی میں کیا جاسکتا ہے اور صرف خدا ہی کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔ انھا سآءت مستقراً وقماماً مستقر اور مقام یوں تو ہم معنی الفاظ کی حیثیت سے بھیاستعمال ہوتے ہیں لیکن جب یہ دونوں ایک ساتھ استعمال ہوں تو ان کے درمیان کچھ فرق ہوجاتا ہے۔ میں ان کے مواقع استعمال پر غور کرنے سے جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ مستقر میں مستقل قیام گاہ کا مفہوم پایا جاتا ہے اور مقام عارضی جائے قیام کے لئے بھی آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہنم ایک ایسی ہولناک جگہ ہے کہ مستقل مستقر کی حیثیت سے تو درکنار ایک عارضی منزل کی حیثیت سے بھی وہ گوارا کئے جانے کے قابل نہیں ہے حالانکہ کوئی بری سے بری جگہ بھی ایسی ہو سکتی ہے کہ کسی پہلو سے وہ وقتی طور پر گوارا کی جاسکے۔
Top