Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 67
وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَآ اَنْفَقُوْا : جب وہ خرچ کرتے ہیں لَمْ يُسْرِفُوْا : نہ فضول خرچی کرتے ہیں وَلَمْ يَقْتُرُوْا : ور نہ تنگی کرتے ہیں وَكَانَ : اور ہے بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان قَوَامًا : اعتدال
اور جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے اور نہ تنگی اور اس کے درمیان کی معتدل راہ اختیار کرتے ہیں
انفاق کے لئے اہتمام یہ ان کے اس اہتمام کی طرف اشارہ ہے جو ان کے اندر انفاق فی سبیل اللہ کے لئے پایا جاتا ہے۔ فرمایا کہ جب وہ اپنی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں تو اس میں احتیاط و کفایت شعاری محلوظ رکھتے ہیں۔ نہ وہ اس میں اسراف کو راہ دیتے ہیں نہ بخالت کو۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے مال میں دوسروں کے بھی حقوق ہیں۔ اس وجہ سے وہ اپنی ضروریات کو ان کے حدود سے متجاوز نہیں ہونے دیتے تاکہ دوسروں کے حقوق اد اکر سکیں۔ اگرچہ متوسط درجہ کی زندگی کے لئے کوئی ایک معین معیار مقرر کرنا مشکل ہے۔ اس میں حالات کی تغیر کے اعتبار سے فرق ہوسکتا ہے لیکن یہ فرق اتنا باریک نہیں ہے کہ ایک عادمی اس کو معلوم نہ کرسکے۔ اپنی قوم اور اپنے معاشرے کے معیار کو سامنے رکھ کر ہر صاحب مال اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا کیا معیار رکھے کہ اپنے دوسرے غریب بھائیوں اور اپنے دین کی بھی خدمت کرسکے۔ اس معاملہ میں سلف صالحین نے ہمارے جو نمونہ چھوڑا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو الائونس دینے کے بجائے آدمی کا غالب رجحان دوسرے پہلو کی طرف رہنا چاہئے۔ یعنی وہ اپنا معیار زندگی اونچا کرنے کے خبط میں مبتلا ہونے کے بجائے زیادہ سے زیادہ انفاق فی سبیل اللہ کرے۔ اس راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا بھی اسراف نہیں ہے۔ رہے وہ لوگ جو معیار زندگی اونچا کرنے کی تونس میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو وہ شیطان کے بھائی بن جاتے ہیں اور ان کو کبھی خد اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ جس معاشرے میں یہ بیماری عام ہوجانی ہے بالآخر اس پر اشتراکیت کا عذاب مسلط ہو کر رہتا ہے۔
Top