Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 146
اَتُتْرَكُوْنَ فِیْ مَا هٰهُنَاۤ اٰمِنِیْنَۙ
اَتُتْرَكُوْنَ : کیا چھوڑ دئیے جاؤگے تم فِيْ : میں مَا هٰهُنَآ : جو یہاں ہے اٰمِنِيْنَ : بےفکر
کیا تم انہی نعمتوں میں جن میں یہاں ہو، ہر خطرے سے محفوظ، چھوڑے رکھے جائو گے !
آیت 149-146 نعمت کے ساتھ شکر نعمت نہ ہو تو وہ استدراج ہے اوپر والی بات بطور تمہید تھی۔ یہ اس اصل خطرے سے حضرت صالح نے قوم کو آگاہ فرمایا جو بالکل سامنے تھا لیکن دنیوی کامیابیوں کے نشہ میں مغروروں و نظر نہیں آ رہا تھا وہ اپنی مادی فربہی کو اپنی صحت و توانائی گمان کئے بیٹھے تھے۔ حضرت صالح ؑ نے آگاہ فرمایا کہ یہ فربہی صحت نہیں بلکہ ایک ناگہانی موت کا الارم ہے۔ اوپر حضرت ہود کی سرگزشت میں ہم یہ اشارہ کرچکے ہیں کہ نعمت کے ساتھ اگر شکر نعمت موجود نہ ہو تو وہ استدراج ہے جو بالآخر قوم کے لئے تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف صالح نے اپنی قوم کو توجہ دلائی اور الفاظ سے صاف واضح ہے کہ عین اس دور میں توجہ دلائی ہے جو قوم کی ترقی و عروج کا دور تھا۔ نعمت صنعم کی ایک امانت ہے فی ماھھنآ سے اشارہ اس رفاہیت و خوش حالی کی طرف ہے جو قوم کو حاصل تھی۔ بعد کے الفاظ سے اس کی وضاحت ہوگئی ہے۔ نعمت و رفاہیت اگر کسی کے لئے غفلت کا باعث ہو تو یہ اس کی بلاوت کی دلیل ہے۔ ہر نعمت منعم کی شکر گزاری کا حق واجب کرتی ہے اور اس شکر گزاری کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ برابر چوکنا رہے کہ مبادا کسی نعمت کا حق ادا کرنے میں کوئی کوتاہی ہوجائے۔ نعمت کسی کا حق نہیں بلکہ منعم کی طرف سے ایک امانت ہے اس وجہ سے جس کی تحویل میں جتنی ہی زیادہ امانت ہو اس کو اتنا ہی زیادہ فکر مند اور بیدار رہنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص نعمت پا کر نچنت ہو کر سو رہے کہ یہ نعمت اس کا حق ہے اور وہ اس میں عیش کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے تو وہ نہایت احمق ہے۔ نعمت کے اندر بےفکری، جس کو آیت میں امنین سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ بالآخر وہی نتیجہ پیدا کرتی ہے جو ریشم کے کیڑے کے سامنے آتا ہے کہ جو ریشم وہ اپن اوپر تنتا ہے اسی کے اندر وہ گھٹ کر مرتا اور وہی اس کا کفن بنتا ہے۔ قرآن میں ربوبیت سے قیامت پر جو جگہ جگہ استدلال کیا گیا ہے اس میں بھی یہی پہلو ہے کہ ہر نعمت کے ساتھ مسئولیت لازمی ہے۔ اس پر انسان کی فطرت اور اس کی عقل گواہ ہے۔ صرف وہی اس کا انکار کرسکتے ہیں جن کی فطرت مسخ اور عقل مائوف ہوچکی ہو۔ طلعھا ھضمیم یعنی داخل لعضھا فی بعض وہ کھجور جس کے خوشے آپس میں گتھم گتھا ہوں۔ فی جنت … طلعھا ھضیم یہ جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا فی ماھھنا کے اجمال کی تفصیل ہ ہے۔ ہم دوسرے مقام میں وضاحت کرچکے ہیں کہ عرب میں اچھے باغ کا تصور یہ تھا کہ انگوروں، اناروں کا باغ ہو اور اس کے نیچے نہریں جاری ہوں۔ بیچ بیچ میں مختلف چیزوں کی کاشت کے لئے قطعات ہوں اور کنارے کنارے کھجوروں کی باڑ ہو۔ یہاں انہی اجزاء کو الگ الگ گنا کر سوال فرمایا ہے کہ کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ یہ ساری چیزیں تمہیں دے کر باغ کا اصل مالک اس سے بالکل بےتعلق ہو کر بیٹھ رہا ہے اور اس کی بابت تم سے کوئی پرستش نہیں ہونی ہے۔ یہ امر واضح رہے کہ یہی حقیقت تمثیل کی صورت میں انجیلوں میں بھی بار بار واضح فرمای گی ہے۔ وتنعتون من الجبال بیوتاً فرھین فرہ کے معنی خوش ہونے، مگن ہونے، اکڑنے اور اتران یکے ہیں۔ یہ حالت کسی کے نچنت اور عاقبت نا اندیش ہونے کا لازمی نتیجہ ہے اوپر لفظ امنین جو آیا ہے اسی کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔ چناچہ سورة حجر کی آیت 82 میں اسی مضمون کو امین سے تعبیر فرمایا ہے۔ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود نے فن سنگ تراشی میں بہت ترقی کی تھی۔ ان کے امراء و اغنیاء پہاڑوں کو ترشوا کر ان کے اندر اپنے لیے شاندارپ ہاڑی ایوان و محل بنواتے اور جس طرح اوپر قوم عاد کے ذکر میں گزارا ہے ان کا یہ ذوق بھی محض ان کے تفاخر کا نتیجہ تھا۔ لفظ فرھین ان کے اس ذوق کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ محض تفاخر کے لئے دولت کا اسراف خدا اور آخرت سے بےفکری کا نتیجہ ہے اور اس سے جو تمدن وجود میں آتا ہے اس میں خلق کے لئے خیر و رفاہیت کا کوئی پہلو نہیں ہوتا اس وجہ سے قانون قدرت میں اس کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ وہ بہت جلد شانار کھنڈروں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ حضرت صالح نے اپنی قوم کو اسی خطرے سے آگاہ فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ جو کچھ تم بنا رہے ہو یہی بنانے کے لئے تم ہمیشہ چھوڑے رکھے جائو گے۔ اب اس کی مہلت تمام ہونے والی ہے۔
Top