Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 155
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۚ
قَالَ : اس نے فرمایا هٰذِهٖ : یہ نَاقَةٌ : اونٹنی لَّهَا : اس کے لیے شِرْبٌ : پانی پینے کی باری وَّلَكُمْ : اور تمہارے لیے شِرْبُ : بایک باری پانی پینے کی يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ : معین دن
اس نے کہا، یہ ایک اونٹنی ہے۔ ایک دن پانی پینے کی باری اس کی ہے اور ایک معین دن کی باری تمہارے لئے ہے
آیت 156-155 قوم کے لئے عذاب کی نشانی کا تعین حضرت صالح ؑ نے قوم کے اس فیصلہ کن جواب کے بعد ایک اونٹنی کو، جو ہوسکتا ہے کہ انہی کی رہی ہو نامزد کردیا کہ یہ عذاب کی نشانی ہے۔ یہ عذاب کے مقابل میں ایک بند کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر تم نے اس بند کو توڑا تو تم پر عذاب الٰہی آدھمکے گا۔ خبردار اس کو کوئی گزند نہ پہنچائیو ! ساتھ ہی بطور امتحان یہ ہدایت بھی دے دی کہ مویشیوں کے پانی پلانے کے گھاٹ پر ایک دن پانی پینے کی باری اس کی ہوگی اور ایک دن تمہارے مویشیوں کے لئے خاص ہوگا۔ جو دن اونٹنی کی باری کا ہو اس میں کوئی اس سے مزاحم نہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے جانوروں کے پانی پلانے کا گھاٹ ایک ہی تھا۔ حضرت صالح نے اس پابندی سے اس معاملے کو ایک سخت آزمائش بنا دیا تاکہ قوم کی جسارت پوری طرح بےنقاب ہوجائے۔ مقصود یہ دیکھنا تھا کہ اگر اس تنبیہ کے بعد بھی لوگوں نے اونٹنی کو گزند پہنچانے کی جسارت کی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے بعد وہ خود ان پر بھی ہاتھ اٹھانے سے باز نہیں رہیں گے اور جب قوم رسول کے معاملے میں طفیان کی اس حد تک بڑھ جاتی ہے تو سنت الٰہی کے بموجب وہ عذاب کی گرفت میں آجاتی ہے۔
Top