Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 157
فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَۙ
فَعَقَرُوْهَا : پھر انہوں نے کونچیں کاٹ دیں اسکی فَاَصْبَحُوْا : پس رہ گئے نٰدِمِيْنَ : پشیمان
پس انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں تو انہیں پچھتانا پڑا
نہ مروھا فاصبحوا ندمین 157 ایک کی بےدانشی سب کے لئے موجب عذاب بھلا یہ اشرار اس پابندی کو کب گوارا کرنے والی تھے کہ ا کی دن گھاٹ پر حضرت صالح کی اونٹنی بلا شرکت غیرے، پانی پیے اور دوسرے دن وہ پلائیں۔ چناچہ انہوں نے جسارت کر کے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ اس فعل کا ارتکاب اگرچہ کیا ایک ہی شخص نے لیکن قرآن نے اس کو منسوب پوری قوم کی طرف کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی شرارت پر دوسرے راضی ہوں، اس کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس جرم کے ارتکاب میں سب شریک ہیں چناچہ اس کے نتیجہ میں جو عذاب آیا وہ سب پر آیا۔ فاصبحوا ندمین عذاب کی تعبیر ہے۔ یعنی بالآخر انہیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اس جرم کے ارتکاب کے بعد وہ اس پر پچھتائے۔ قرآن کے دوسرے مقامات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جرم کے بعد ان کو تین دن کی مہلت ملی۔ یہ مہلت ظاہر ہے کہ اسی لئے ملی تھی کہ اگر اب بھی ان کو اپنے اس جرم کا احساس ہوجائے تو وہ توبہ و استغافر سے خدا کے عذاب سے اپنے کو بچا سکتے ہیں لیکن اس مہلت سے بھی انہوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔
Top