Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 196
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِيْ : میں زُبُرِ : صحیفے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (پیغمبر)
اور اس کا ذکر اگلوں کے صحیفوں میں بھی ہے
آیت 197-196 قرآن کے حق میں سابق صحیفوں کی شہادت یہ قرآن کے حق میں سابق صحیفوں کی شہادت کا حوالہ ہے کہ اس کا ذکر اور اس کی پیشین گوئی انبیائے الیقین کے صحیفیوں میں بھی موجود ہے۔ آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کی تعلیم و دعوت سے متعلق تورات، زیور اور انجیل میں جو پیشین گوئیاں ہیں ہم ان کا حوالہ ان کے محل میں دے چکے ہیں۔ ان پیشین گوئیوں سے بنی اسرائیل کے علماء اچھی طرح آگاہ تھے۔ اگرچہ ان کی اکثریت نے ان کو چھپایا لیکن ان کے اندر ایسے علمائے حق بھی تھے جنہوں نے ان کا برملا اظہار کیا اور وہ آنحضرت ﷺ پر ایمان بھی لائے۔ قرآن نے ان کی اس حق پرستی کی جگہ جگہ نہایت شاندار الفاظ میں تعریف فرمائی ہے۔ انہی پیشین گوئیوں اور انہی علماء کا حوالہ دے کر یہ قرآن کے مخالفین سے سوال کیا ہے کہ کیا قرآن اور اس کے داعی کی صداقت کی یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ وہ کسی مزید نشانی کا مطالبہ کر رہے ہیں ؟ یہ امر محلوظ رہے کہ دینی معاملات میں اہل عرب اہل کتاب کی برتری تسلیم کرتے رہے ہیں لیکن آنحضرت ﷺ کی مخالفت کے جوش میں وہ ایسے اندھے ہوگئے کہ جن اہل کتاب نے ان کی پیٹھ ٹھونکی ان کو تو انہوں نے اپنا ہمدرد بہی خواہ سمجھا لیکن جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی تائید کی ان کو انہوں نے، جیسا کہ پچھلی سورة میں گزر چکا ہے۔ قرآن کی تصنیف میں اسے شریک سازش قرار دے دیا۔ ترجمہ اصل قرآن کا قائم مقام نہیں آیت وانہ لفی زبرالاودین کی یہ تاویل جو ہم نے کی ہے نہایت واضح ہے۔ اس کے شواہد پیچھے بھی اس کتاب میں گزر چکے ہیں۔ آگے بھی آئیں گے لیکن معلوم نہیں کہ کس طرح بعض فقہاء کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ انہوں نے اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ قرآن کسی عجمی زبان میں بھی پڑھا سجات ہے۔ یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ کسی دوسری زبان میں اگر قرآن کو منتقل کیا جائے گا تو وہ قرآن نہیں ہوگا بلکہ اس کا ترجمہ ہوگا اور ترجمہ اور اصل میں آسمان و زمین کا فرق ہوتا ہے۔ پورے قرآن کو تو درکنار قرآن کی کسی ایک سورة بلکہ ایک آیت کے ترجمہ کو قرآن کی سورة یا اس کی آیت کا قائم مقام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ جو لوگ قرآن کے ایجاز اور اس کے اعجاز سے واقف ہیں ان کا تجربہ تو یہ ہے کہ بعض آیات کا مفہوم بالکل واضح ہوتا ہے۔ مترجم ان میں کوئی ابہام یا اشکال بھی محسوس نہیں کرتا، لیکن برسوں کی محنت کے بعد بھی جب وہ ان کا ترجمہ کرنے بیٹھتا ہے تو، ترجمہ کی زبان پر پوری قدرت رکھنے کے باوجود وہ صاف محسوس کرتا ہے کہ ترجمہ میں آیت کی بلاغت تو درکنار اس کے پورے مفہم کو بھی وہ ادا نہیں کر پایا۔ قرآن تو خیر ایک عجز کتاب ہے، دوسرے آسمانی طحائف، جن کے معجز ہونے کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے، ان کا حال بھی یہ ہے کہ ان کے ترجموں کو ان کی اصل کا قائم مقام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ بلکہ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ یہود و نصاری کی گمراہی میں بڑا دخل اس چیزم کو بھی ہے کہ ان کے صحیفوں کی اصل زبان مٹ گی اور انہوں نے ان کے ترجموں ہی کو اصل کا قائم مقام قرار دے کر انہی پر اپنی تمام فقہ اور سارے علم کلام کی بنیاد رکھ دی۔ پال نے نصاریٰ کو گمراہ کرنے میں انجیلوں کے ترجموں سے جو کام لیا ہے اس کی وضاحت ہم اس کے محل میں کرچکے ہیں بہرحال ہمارے نزدیک یہ استنباط اس آیت سے بالکل بےجوڑ اور بجائے خود بالکل غلط بلکہ دین کے لئے ایک شدید فتنہ ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ جن فقہاء کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ کسی غلط فہمی کی بنا پر منسوب کی گئی ہے لیکن یہ بحث ہمارے موضوع سے الگ ہے اس وجہ سے ہم اس کی تحقیق میں پڑنا نہیں چاہتے۔
Top