Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 75
قَالَ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ
قَالَ : ابراہیم نے کہا اَفَرَءَيْتُمْ : کیا پس تم نے دیکھا مَّا : کس كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو
اس نے کہا، کیا تم نے ان چیزوں پر غور کیا ہے جن کو تم پوجتے ہے ہو ،
آیت 77-75 حضرت ابراہیم کا اعلان برأت افرء یتم کے اسلوب میں تعجب اور اظہار نفرت و بیزاری کا مضمون پایا جاتا ہے۔ یعنی ذرا ان چیزوں پر نگاہ تو ڈالو جن کو تمہارے باپ دادا پوجتے رہے اور جن کی پرستش پر تمہیں بھی ناز ہے۔ یہ بالکل بےحقیقت چیزیں ہیں۔ ان کے بارے میں میرا یہ فیصلہ سن لو کہ یہ ساری چیزیں میری دشمن ہیں اور میں ان سے بیزار ہوں۔ میں اللہ رب العالمین کے سوا کسی چیز کی پرستش نہیں کرتا۔ ”یہ چیزیں میری دشمن ہیں“ یعنی یہ شیطان کے ایجاد کئے ہوئے پھندے ہیں اور شیطان بنی نوع انسان کا دشمن ازلی ہے جس کا اصل کام ہی یہ ہے کہ وہ خلق خدا کو صراط مستقیم سے روکے۔ یہ حضرت ابراہیم کا وہ اعلان برأت ہے جس کے بعد انہوں نے ہجرت فرمائی۔ سورة والصافات میں ان کا کلمہ ہجرت یوں نقل ہوا ہے۔ انی ذاھب الی ربی سیھدین (99) (میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں وہ میری رہنمائی فرمائے گا) اسی ہجرت کا اعلان عنکبوت کی آیت 26 میں ہے۔ پیغمبر اپنے ماحول کا نہایت خیر خواہ، دوست، مشفق اور ہمدرد ہوتا ہے لیکن جب ماحول خود اس کا دشمن بن جاتا ہے اور اس کی ہدایت کی قدر کرنے کے بجائے اس سے اپنی ضلالت کی قدر کرانا چاہتا ہے تو وہ ان کو اپنا دشمن سجھ کر اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہے۔ اسی وجہ سے سیدنا ابراہیم ؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں ان کا دشمن ہوں بلکہ یوں فرمایا کہ وہ میرے دشمن ہیں۔
Top