Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 78
الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ
الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَنِيْ : مجھے پیدا کیا فَهُوَ : پس وہ يَهْدِيْنِ : مجھے راہ دکھاتا ہے
جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہ میری رہنماء فرماتا ہے
آیت 82-78) اپنی قوم کے بتوں کی بےحقیقتی واضح کرنے کے بعد یہ حضرت ابراہیم نے اس رب حقیق کی صفات بیان فرمائی ہیں جو عبادت و اطاعت کا اصلی حق دار ہے۔ الذین خلقنی فھو یھدین یعنی میری عبادت کا اصلی حق داروہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور وہ میری رہنمائی فرماتا ہے۔ یہ بیان واقعہ بھی ہے اور غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ خلق اور ہدایت میں لزوم عقلی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف پیدا ہی نہیں کیا ہے بلکہ اس نے ہمارے اندر نہایت اعلیٰ صلاحیتیں ودیعت فرمائیں اور پھر ہمیں ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور اجاگر کرنے کا سلیقہ عطا فرمایا۔ اس نے ہمیں نہایت اعلیٰ فطرت پر پیدا کیا اور ہمیں عقل عطا فرمائی جو حق و باطل اور خیر و شر میں امتیاز کرنے والی اور زئیات سے کلیات اور محسوسات سے معقولات تک پہنچنے والی ہے۔ چناچہ فرمایا ہے : الذی خلق فسوی، والذین قد رفھدی (اعلیٰ 3-2) (جس نے ہمارا خاکہ بنایا پھر اس کے نوع پلک سنوارے اور جس نے ہمارے اندر صلاحیتیں ودیعت فرمائیں، پھر ان کے استعمال کے لئے ہماری رہنمائی فرمائی)۔ روحانی پرورش یہ ہدایت خدا کی صفت خلق کا، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، لازمی تقاضا ہے جس خدا نے اس اہتمام اور اس حکمت کے ساتھ انسان کو پیدا کیا ہے اس کی رحمت و حکمت و حکمت سے یہ بات بعید تھی کہ وہ پیدا کر کے اس کو یوں ہی بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو یہ نہ صرف ایک کار عبث ہوتا بلکہ یہ ایک ظلم بھی ہوتا جو اس کی شان کے منافی ہے۔ اس وجہ سے اس نے جس طرح انسان کی تمام مادی ضروریات کا اہتمام فرمایا اسی طرح اس کے اس روحانی ضرورت کا بھی اہتمام فرمایا اور چونکہ انسان کے اصلی کمال کا انحصار اس کی اسی ضرورت کے کما حقہ، پورے ہونے پر تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس معاملے کو تنہا اس کی عقل پر نہیں چھوڑا بلکہ اس کی ہدایت کے لئے نبوت و رسالت کا انتظام بھی فرمای۔ حضرت ابراہیم ؑ کے اشراد کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی سزا وار وہ ذات ہے جو ان تمام افضال و عنایات کا منبع ہے نہ کہ یہ پتھر کی مورتیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں، نہ نفع پہنچ اسکتی ہیں نہ نقصان ! والذین ھو یطعمنی ویسقین، واذا مرضت فھو یشفین، روحانی و عقلی ربوبیت کے بعد یہ اللہ تعالیٰ کی مادی پرورش کی طرف توجہ دلائی کہ میرا رب وہ ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں کبھی بیمار پڑجاتا ہوں تو وہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے شفا بخشتا رہی ہیں اور خاص طور پر اس وہم کو ان کے شرک میں بڑا دخل رہا ہے کہ بیماری ان کی ناراضگی سے لاحق ہوتی ہے اور شفا ان کی خوشنودی سے حاصل ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کے ان اوہام پر بھی ضرب لگائی کہ ان میں سے کسی چیز میں بھی ان اصنام کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ ساری چیزیں اس کائنات کے رب کے اختیار میں ہیں۔ واذا مرضت فھو یشفین کا اسلوب بیان بھی قابل توجہ ہے۔ کھلانے، پلانے اور شفا دینے کے افعال کی نسبت و براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی لیکن بیمار ہونے کی نسبت اپنی طرف رفمائی۔ اس کی وجہ سوء ارب سے احتراز بھی ہے اور اس حقیقت کا اظہار بھی کہ نعمتیں جس قدر بھی بندے کو ملتی ہیں وہ سب خدا کے فضل وجود سے ملتی ہیں لیکن اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بسا اوقات اس کے کسی عمل پر مترتب ہوتی ہے۔ ہرچند وہ پہنیتک تو خدا کے اذن و حکم ہی سے ہے لیکن اس میں انسان کی اپنی غفلت کو بھی دخل ہوتا ہے، اس وجہ سے وہ بندے کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ حضرت ابراہمی نے اسی پہلو کو مدنظر رکھ کر یہاں یہ فرمایا کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں یہ نہیں فرمایا کہ ”وہ مجھے بیمار کرتا ہے“ پرورش و بداست سے روز جزا کی دلیل والذین یمیتی ثم یحین یہ اس خلق و ہدایت اور اہتمام ربوبیت کے لازمی نتیجہ کی طرف توجہ دلائی کہ وہی ہے جو مجھے ایک دن موت دے گا اور پھر لازماً اس کے بعد ایک دن زندہ بھی کرے گا۔ جب اس نے مجھے پیدا کیا اور اس میں اس کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی تو دوبارہ زندہ کردینے میں کیں مشکل پیش آئے گی اور ایسا ہونا اس کے اس سارے اہتمام ہدایت و ربوبیت کا لازمی تقاضا بھی ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ میرے لئے ہدایت اور پرورش کا یہ اہتمام فرمائے اور پھر یہ زندگی یوں ہی تمام ہوجائے۔ والذی طمع ان یغفرلی خطیتی یوم الدین یہ اس روز جزا و سزا کے ظہور کی طرف اشارہ ہے جس سے اس دنیا کی زندگی کے بعد لازماً ہر شخص کو سابقہ پیش آنا ہے، لیکن حضرت ابراہیم نے اس کے ظہور کی خبر دنیے کے بجائے اپنی اس توقع کا اظہار فرمایا جو اپنے رب سے وہ اس دن کے پیش آنے پر رکھتے ہیں۔ گویا اس دن کا پیش آنا تو ایک بدیہی حقیت ہے جس میں کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے البتہ اس کے لئے ہر شخص کو تیاری کرنی چاہئے اور اپنے رب سے یہ امید رکھنی چاہئے کہ جو اس سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاریں گے وہ ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے گا۔ معالمات کے تقاضے سے ایک خاص اسلوب کلام یہاں یہ امر محلوظ رہے کہ سیدنا ابراہیم ؑ نے اپنے مخاطبوں کے سامنے اپنی دعوت کے تمام بادی رکھ دیئے ہیں جن کے اندر نہایت گہرا منطقی ربط بھی ہے لیکن انہوں نے ان کو پیش کرنے میں دعویٰ اور دلیل کا اسلوب اختیار کرنے کے بجائے اپنے ذاتی تاثرات کے اظہار کا انداز اختیار فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مرحلہ جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اعلان برأت و ہجرت کا تھا۔ اس مرحلے میں قوم کو مخطاب کر کے بحث و استدلال کے انداز میں کچھ کہنا بےسود تھا اس وجہ سے انہوں نے اپنے ذاتی تاثرات نہایت بلیغ انداز میں ان کے سامنے رکھ دیئے کہ شاید اس طرح ان کے دل میں کوئی بات اتر جائے۔ اگر دلوں میں زندگی کی کچھ رمق ہوتی ہے تو یہ اسلوب بعض اوقات نہایت موثر ہوتا یہ۔ قرآن میں اس کی نہایت بلیغ مثالیں موجود ہیں۔
Top