Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 47
قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَ١ؕ قَالَ طٰٓئِرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ
قَالُوا : وہ بولے اطَّيَّرْنَا : برا شگون بِكَ : اور وہ جو وَبِمَنْ : اور وہ جو مَّعَكَ : تیرے ساتھ (ساتھی) قَالَ : اس نے کہا طٰٓئِرُكُمْ : تمہاری بدشگونی عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : ایک قوم تُفْتَنُوْنَ : آزمائے جاتے ہو
انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو یہ سب تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی نحوست سمجھتے ہیں۔ اس نے کہا، تمہارا نصیبہ اللہ کے پاس ہے بلکہ یہ تو تم آزمائے جا رہے ہو
قالوا ظیرنابک وبمن معک قال طئرکم عند اللہ بل انتم قوم نفتون (47) ہم اس سنت الٰہی کی وضاحت اعراف 94 کے تحت کرچکے ہیں کہ رسولوں کی بعثت کے زمانے میں ایسی آزمائشوں کا ظہور خاص طور پر ہوا ہے جس سے قوم کے اندر انابت و خشیت پیدا ہوتا کہ لوگوں کے دل رسول کی دعوت کی طرف مائل ہوں اور وہ متنبہ ہوں کہ اگر انہوں نے رسول کی بات نہ مانی تو ان پر وہ فیصلہ کن عذاب آجائے گا جس کی رسول خبر دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام دعوت حق کے لئے فضا کو ساز گار بنانے کے لئے فرمایا لیکن لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے یا تو اپنے لیڈروں کے اس مغالطے سے اپنی کو تسلی دے لی کہ اس طرح کے نرم و سخت دن تو قوموں پر آیا ہی کرتے ہیں، ان کو کسی کی تصدیق و تکذیب سے کیا تعلق ! یا ان آفتوں کو رسول اور اس کے ساتھیوں کے کھاتے میں ڈال دیا کہ یہ ان کی نحوست کے نتائج ہیں جن سے ہم دوچار ہو رہے ہیں، یہ ہمارے معبودوں اور ہمارے باپ دادا کے دین کے مخالف بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اس وجہ سے ہمارے معبودوں اور بزرگوں کی مار ان پر پڑی ہے اور ان کی لائی ہوئی آفتب میں بم بھی حصہ پا رہے ہیں۔ یہ جو ہم نے عرض کیا ہے اس کے شواہد نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کتاب میں پیچھے اس پر مفصل بحثیں گزر چکی ہیں۔ یہاں آیت زیر بحث میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب ہم نے اپنی سنت کے مطابق ان کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کیا تاکہ ان کے دل رسول کی دعوت کی طرف مائل ہوں اور وہ ڈریں کہ اگر انہوں نے سول کی تکذیب کی توفی الواقع وہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آجائیں گے تو ان تنبیہات سے متاثر ہونے کی بجائے انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ تو صالح اور ان کے ساتھیوں کو نحوست ہے کہ ہم ان آفتوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے ہٹ دھرمی لوگوں کا کیا علاج ! اگر عذاب نہیں آتا تو اس کی نشانی مانگتے ہیں اور اگر نشانی دکھائو تو اس کو پیغمبر اور اس کے ساتھیوں کی نحوست پر محمول کرتے ہیں۔ قال طبرکم عند اللہ بل انتم قوم تفتنون لظ طائر اور اتصیر پر بحث اعراف 131 کے تحت گزر چکی ہے۔ یہاں لفظ طائر اور نصیبہ اور قسمت کے مفہوم میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ آزمائشیں اور آفتیں جو پیش آرہی ہیں ان کو تم ہماری نحوست کا نتیجہ قرار دے رہے ہو حالانکہ ان سب کا سر رشتہ خدا کی تدبیر و تقدیر اور اس کی مشیت و حکمت سے یہ۔ یہ ہماری نحوست کے سبب سے نہیں ظا ہور ہو رہی ہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہو رہی ہے۔ ان آزمائشوں میں ڈال کر وہ تمہیں دیکھ رہا ہے کہ تم میں کچھ صلاحیت قبول حق کی ہے یا اب تم بالکل ہی مردہ اور دفن کردیئے جانے کے لائق ہوچکے ہو !
Top