Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا میں نے ایک آگ سی دیکھی ہے میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لاتا ہوں یا آگ کا کوئی انگارا تاکہ تم تاپو
آگے کا مضمون …… آیات 14-7 آگے حضرت موسیٰ کی سرگزشت کے اس حصہ کا اجمالی حوالہ ہے جب ان کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا ہے اور نو معجزات سے مسلحکر کے ان کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس انذار کے لئے جانے کی ہدیات فرمائی۔ یہاں اس سرگزشت کے حوالہ سے مقصود آنحضرت ﷺ خاص طور پر تین باتوں کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ پہلی یہ کہ آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی طرح قرآن کی وحی سے سرفراز فرمایا جس طرح حضرت موسیٰ کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے جو آپ پر ہوا ہے۔ نہ آپ کو اس نئیت جربے سے پریشان ہونا چاہئے اور نہ دوسروں کو اس سے متوحش ہونے کی کوئی وجہ ہے۔ دوسری یہ کہ جو لوگ ایمان نہیں لانا چاہتے وہ دنیا جہان کے معجزے دیکھ کر بھی اندھے ہی بنے رہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے ایک دو نہیں بلکہ اکٹھے نو معجزات دیے اور جن لوگوں کو وہ معجزے دکھائے گئے ان کو یقین تھا کہ یہ خدائی معجزتا ہیں لیکن پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے۔ تیسری یہ کہ مفسدین کو اللہ تعالیٰ ایک خاص مدت تک ڈھیل دینے کے بعد لازماً فنا کردیتا ہے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمایئے۔ حضرت موسیٰ کی سرگزشت حضور کے لئے سبق آموز حضرت موسیٰ کی یہ سرگزشت پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے اور اس کے ہر جزو کی وضاحت بھی ہوچکی ہے یہاں ہم اس کے صرف اس پہلو کو مدنظر رکھیں گے جس کا تعلق سورة کے نظام سے ہے۔ نبوت و رسالت کے متعلق یہ بات معلوم ہے کہ یہ کوئی عام تجربے کی چیز نہیں ہے۔ اس کا تجربہ صرف انہی لوگوں کو ہوا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس کار خاص کے لئے منتخب فرمایا ہے اس وجہ سے جن کو یہ چیز عطا ہوئی ان کو بھی اس کے اسرار و موز سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا اور جن کے سامنے اس کی دعوت پیش کی گئی انہوں نے بھی اس کو بالعموم ایک انوکھی اور عجیب چیز سمجھا اور اس کے خلاف طرح طرح کے شبہات و اعتراضات اٹھائے ان دونوں ہی چیزوں کا واحد علاج یہی ہوسکتا تھا کہ ان نبیوں کے حالات سنائے جائیں جو اس سلسلہ کے تمام مراحل سے گزر چکے تھے تاکہ نبی ﷺ کو بھی ان کے مشاہدات و تجربات سے طمانیت و سکنیت حاصل ہوا اور آپ ﷺ کے معترضین و مخالفین پر بھی ان کی حجت قائم ہو سکے۔ آنحضرت ﷺ سے اوپر آپ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ نبی و رسول سیدنا موسیٰ تھے جن کی زندگی کے حالات بھی تفصیل کے ساتھ تورات میں موجود تھے اور ان پر ایمان کی مدعی ایک قوم بھی موجود تھی جو بدقسمتی سے قرآن اور نبی ﷺ کی، جیسا کہ آگے اس سورة میں بھی اس کی طرف اشارہ ائٓے گا، مخالفت کر رہی تھی۔ اس وجہ سے حضرت موسیٰ کے حالات و تجربات اس مرحلے میں نبی ﷺ کے لئے بھی سب سے زیادہ تسکین بخش ہو سکتے تھے اور مخالفین کے لئے بھی سب سے زیادہ سبق آموز ہو سکتے تھے بشرطیکہ وہ ان سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ انہی دونوں مقصدوں سے یہ سرگزشت سنائی جا رہی ہے۔ مخاطب اگرچہ نبی ﷺ ہی ہیں لیکن روئے سخن مخالفین کی طرف بھی ہے۔ نبوت ایک موبیت ربانی ہے اس آیت سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ نبوت و رسالت ایک خاص موہبیت ربانی اور فضل یزدانی ہے۔ اس کو اکتساب یا طلب و تمنا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مصنف، شاعر، خطیب، کاہن، ساحر، منجم، جوتشی اور اس قبیل کے سادے ہی لوگ اپنے اپنے فن اور پیشہ کو سکیھنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور اس کی طلب و تمنا میں ایک عمر کھپاتے ہیں تب کہیں ان کو اپنے فن میں کچھ درخور حاصل ہوتا ہے لیکن نبی و رسول کی تربیت اللہ تعالیٰ خود اپنی نگرانی میں کرتا ہے نبی نہ کسی کا شاگرد ہوتا نہ وہ کسی مدرسہ میں بیٹھتا اور نہ اس کے ذہن میں نبوت کا کوئی گمان یا ارمان ہوتا، بس اللہ تعالیٰ ہی زندگی کے نشیب و فراز کے امتحانوں سے گزار کر، اس کو اس کار خاص کے لئے تیار کرتا ہے جو اس کے سپرد کیا جاتا ہے۔ حضرت یوسف کی تربیت مصر کے زندان میں ہوئی۔ حضرت دائود نے اپنی نسبت خود فرمایا ہے کہ مجھے خداوند نے بھیڑ سالہ سے نکالا اور اسرائیل کے تخٹ پر لا بیٹھایا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ جن کی سرگزشتیہاں بیان ہو رہی ہے، مدین میں حضرت شعیب کی بکریاں چراتے رہے۔ وہاں سے مصر کے لئے واپس ہوتے ہوئے اندھیری اور ٹھنڈی رات میں راستہ بھول گئے۔ دور سے ایک روشنی دکھائی دی۔ انہوں نے گھر والوں سے کہا تم لوگ یہیں ٹھہرو۔ مجھے آگ نظر آئی ہے۔ میں وہاں جاتا ہوں، اگر کچھ لوگ وہاں ہوئیت و ان سے راستہ کا پتہ کرتا ہوں ورنہ آگ ہی کوئی نگاہ لاتا ہوں کہ تم لوگ اس سردی میں تاپ سکو۔
Top