Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 9
یٰمُوْسٰۤى اِنَّهٗۤ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُۙ
يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اِنَّهٗٓ : حقیقت یہ اَنَا اللّٰهُ : میں اللہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اے موسیٰ یہ تو میں ہوں، خدائے عزیز و حکیم !
صفات عزیز و حکیم کا تعارف اوپر کی بات تو ہاتف غیب کی آواز تھی جو حضرت موسیٰ کو سنائی دی اب یہ خود حضرت موسیٰ کر کے رب العزت نے اپنا تعارف کرایا کہ میں ہی خدائے عزیز و حکیم ہوں۔ ان صفات سے تعارف کے وجہ ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہو سکتی کہ حضرت موسیٰ ان سے ناواقف تھے۔ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے اور ایک مدت تک حضر شعیب کی صحبت و معیت میں رہے تھے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے ناواقف نہیں ہو سکتے تھے۔ مقصوداں کی تذکیر سے اس مہم کے لئے ان کے قلب کو مضبوط کرنا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو مامور فرمانا چاہا۔ پچھلی سورة میں العزیز الرحیم کی صفات بار بار آئی ہیں اور انکے مضمرات ہم واضح کرچکے ہیں۔ یہاں عزیز کے ساتھ حکیم کی صفت آتی ہے۔ جس سے مقصود اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ جس ذات نے تم کو اس وقت خطاب و کلام سے مشرف فرمایا ہے۔ وہ ہر چیز پر غالب و مقتدر ہے کوئی اس کے کسی ارادے میں مراحم نہیں ہوسکتا اور ساتھ ہی وہ حکیم ہے اس کا ہر ارادہ حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اور اسلوب کلام چونکہ حصر در حصر کا ہے۔ اس وجہ سے اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ میرے مقابل میں کسی اور کے زور و اقتدار یا میری حکمت و مصلحت کے مقابل میں کسی اور کی حکمت و مصلحت کے تصور کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ غور کیجیے کہ ان صفات کی معرفت اس مہم کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے لئے کتنی ضروری تھی جس پر حضرت موسیٰ مامور کئے جا رہے تھے اور جس کا ذکر آگے کی آیات میں آ رہا ہے۔ خدا کی انہی صفات کی معرفت نے حضرت موسیٰ کے اندر وہ عزیمت پیدا کی کہ وہ بنی اسرایئل جیسی نکمی قوم کے ساتھ فرعون جیسے جبار کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہونے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر قدم پر فیروز مندی عطا فرمائی۔
Top