Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 31
وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْ١ؕ یٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ١۫ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ
وَاَنْ : اور یہ کہ اَلْقِ : ڈالو عَصَاكَ : اپنا عصا فَلَمَّا رَاٰهَا : پھر جب اس نے اسے دیکھا تَهْتَزُّ : لہراتے ہوئے كَاَنَّهَا : گویا کہ وہ جَآنٌّ : سانپ وَّلّٰى : وہ لوٹا مُدْبِرًا : پیٹھ پھیر کر وَّ : اور َمْ يُعَقِّبْ : پیچھے مڑ کر نہ دیکھا يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اَقْبِلْ : آگے آ وَلَا تَخَفْ : اور تو ڈر نہیں اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الْاٰمِنِيْنَ : امن پانے والے
اور یہ کہ تم اپنا عصا ڈال دو تو جب اس نے اس کی اس طرح حرکت کرتے دیکھا گویا سانپ ہو تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ اور پھر مڑ کے نہ دیکھا۔ اے موسیٰ ! آگے آئو اور ڈرو نہیں، تم بالکل مامون ہو
پہلا معجزہ ساتھ ہی یہ ہدایت ہوئی کہ اپنا عصا زمین پر ڈال دو۔ حضرت موسیٰ نے اس ہدایت کی تعمیل کی تو دیکھا کہ عصا سانپ کی طرح حرکت کرنے لگا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ سخت دہشت زدہ ہوئے اور اس طرح پیچھے کو بھاگے کہ اس کی طرف مڑ کے دیکھنے کی بھی جرأ نہیں کی۔ ولم یعقب کی وضاحت سورة نمل کی آیت کے تحت ہوچکی ہے۔ حضرات انبیاء پر ابتدائی مشاہدات کا اثر حضرت انبیائے کرام (علیہم السلام) کو نبوت کے ابتدائی مشاہدات بالکل بےسان گمان پیش آتے ہیں، نہ ان کے ذہن میں پہلے سے ان کا کوئی تصور ہوتا، نہ ارمان، اس وجہ سے شروع شروع میں وہ ان سے گھبراتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بالتدریج ان سے مانوس کردیتا ہے۔ ساحروں، کا ہنوں، متنبیوں اور مفتریوں کے ذہن میں تو پہلے سے ایک اسکیم ہوتی ہے اور وہ اس کے لئے بہت سے پاپڑ بیلتے ہیں اور جب ان کو عوام فریبی کے لئے کوئی اشغلہ ہاتھ آجاتا ہے تو اس کو اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھتے ہیں لیکن حضرات انبیائے کرام اس قسم کے دساوس سے بالکل پاک ہوتے ہیں اس وجہ سے ان کو کوئی معجزہ دیا جاتا ہے تو وہ ان کے لئے ایک بالکل انوکھی چیز ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ جس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے جانے والے تھے اس کے ساحروں کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ وہ اپنی لاٹھیوں اور سیوں کو سانپ بنا دیتے اور اس فن کو حاصل کرنے کے لئے نہیں معلوم ہو کیا کیا ریاضتیں کرتے اور جب اس میں کامیاب ہوجاتے تو سمجھتے کہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی مراد حاصل ہوگئی لیکن حضرت موسیٰ کا حال یہ ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی لاٹھی کو سانپ بنا دیا تو وہ اس سے خوف زدہ ہو کر بھاگے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے اس ابتدائی مشاہدہ کے اس پہلو کو خاص طور پر اسی لئے نمایاں فرمایا ہے کہ آپ کے جس معجزے کو فرعونیوں نے سحر و ساحری کا کرشمہ قرار دیا اس کو دیئے جانے کے وقت حضرت موسیٰ پر کیا گزری ! یموسی اقبل ولاتخف انک من الامنین۔ حضرت موسیٰ پر یہ اضطراری دہشت جب طاری ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے نہایت رافت کے ساتھ ان کو اطمینان دلایا کہ اے موسیٰ ! آگے بڑھو، اس کو اٹھائو، اس سے تمہارے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ خطرہ ہے تو تمہارے دشمنوں کے لئے ہے۔ تم ہر قسم کے خطرے سے محفوظ ہو۔ سورة نمل میں یہی مضمون لایخاف لدی المرسلون کے الفاظ سے بیان ہوا ہے۔ یعنی تم تو ہمارے ایک رسول ہو۔ ہم اپنے رسولوں کو اپنے خاص اسلحہ سے مسلح کرتے ہیں۔ ان سے جو خطرہ پیش آنا ہے وہ ہمارے دشمنوں کو پیش آتا ہے نہ کہ ہمارے رسولوں کو۔
Top