Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 3
نَتْلُوْا عَلَیْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
نَتْلُوْا : ہم پڑھتے ہیں عَلَيْكَ : تم پر مِنْ نَّبَاِ : کچھ خبر (احوال) مُوْسٰى : موسیٰ وَفِرْعَوْنَ : اور فرعون بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں
ہم تمہیں موسیٰ اور فرعون کی سرگزشت کا کچھ حصہ ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں ان لوگوں کی ہدایت کے لئے جو ایمان لانا چاہیں
موسیٰ و فرعون کی سرگزشت سنانے کا اصل مقصد خطاب اگرچہ آنحضرت ﷺ سے ہے لیکن آیت کے آخری الفاظ لقوم یومنون خود شاہد ہیں کہ مقصود اس سرگزشت کے سنانے سے وقت کے فراعنہ یعنی قریش کے لیڈروں کے کان کھولنا ہے۔ بالحق یعنی بالکل ٹھیک ٹھیک غایت و مدعا اور عبرت و موعظت کے ساتھ تورات میں حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگشت نہ تو ٹھیک ٹھیک بیان ہونی ہے اور نہ اس سے وہ موعظت ہی سامنے آتی ہے جو اس کی اصل روح ہے۔ قرآن نے یہ سرگزشت اس کے ان دونوں پہلوئوں کو سامنے رکھ کر سنائی ہے۔ لقوم یومنون میں فعل ہمارے نزدیک ارادہ فعل کے مفہوم میں ہے۔ یہ ٹکڑا اپنے اندر ایک قسم کی تنبہ۔ رکھتا ہے کہ ہم یہ سرگزشت سنا رہے ہیں لیکن اس کا فائدہ انہی کو پہنچے گا جن کے اندر ایمان لانے کا ارادہ پایا جاتا ہے۔ جو اندھے ہر بن چکے ہیں وہ بدستور اندھے بہرے ہی بنے رہیں گے۔
Top