Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 45
وَ لٰكِنَّاۤ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ١ۚ وَ مَا كُنْتَ ثَاوِیًا فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا١ۙ وَ لٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ
وَلٰكِنَّآ : اور لیکن ہم نے اَنْشَاْنَا : ہم نے پیدا کیں قُرُوْنًا : بہت سی امتیں فَتَطَاوَلَ : طویل ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان کی، ان پر الْعُمُرُ : مدت وَمَا كُنْتَ : اور آپ نہ تھے ثَاوِيًا : رہنے والے فِيْٓ : میں اَهْلِ مَدْيَنَ : اہل مدین تَتْلُوْا : تم پڑھتے عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتِنَا : ہمارے احکام وَلٰكِنَّا : اور لیکن ہم كُنَّا : ہم تھے مُرْسِلِيْنَ : رسول بنا کر بھیجنے والے
لیکن ہم نے بہت سی قومیں اٹھائیں تو ان پر ایک زمانہ گزر گیا اور وہ ہماری یاد دہانی کو بھلا بیٹھے تو ہم نے تم کو رسول بنایا کہ ان کو یاد دہانی کرو) اور تم اہل مدین میں بھی ہماری آیتیں سناتے مقیم نہ تھے لیکن ہم تم کو ایک رسولبنانے والے تھے (سو ہم نے ان احوال سے تم کو باخبر کیا)
اس آیت کے ابتدائی ٹکڑے کا تعلق اوپر والی آیت سے ہے یعنی تم ان احوال سے واقف نہیں تھے لیکن ہم نے تم کو واقف کیا اور یہ اس لئے کیا کہ موسیٰ کے بعد ہم نے بہت سی نسلیں پیدا کیں تو ان پر ایک طویل زمانہ گزر گیا اور لوگ ہماری اس کتاب کو بھلا بیٹھے جو ہم نے ان کو ہدایت و رحمت بنا کر عطا کی تھی اس وجہ سے ضروری ہوا کہ ہم تمہارے ذریعہ سے اس ہدایت کو از سر نو زندہ کریں۔ یہاں لطاول علیھم العمر کے بعد منسوالذکرا اس کے ہم معنی الفاظ بر بنائے قرینہ محذوف ہیں۔ وماکنت ثاویا فی امسل مدین یعنی جس طرح تم موسیٰ کو تورات دیئے جانے کے وقت طور کے جانب غربی میں موجود نہیں تھے اسی طرح مدین میں بھی موجود نہ تھے کہ حضرت موسیٰ کے اس دور کے حالات سے واقف ہو سکتے جو انہوں نے مدین میں گزاریا حضرت شعیب کی دعوت اور ان کی رقوم کے انجام سے واقف ہوتے۔ ان چیزوں میں سے تم کسی چیز سے بھی واقف نہ تھے لیکن ہم نے تم کو ان سے واقف کیا کہ جس طرح ہم نے پہلے رسول بھیجے اسی طرح تمہیں رسول بنائیں۔ کنا مرسین اسی طرح کا اسلوب جس طرح کنافاعلین ہے۔ یہ اسلوب کلام کس فیصلہ قطعی اور عزم جازم کے اظہار کے لئے آتا ہے۔ اھل مدین کے بعد تتلوا علیھما ایتنا کے اضافہ سے یہاں اشارہ حضرت شعیب کی سرگزشت کی طرف بھی ہوگیا جو قرآن کی متعدد سورتوں میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں پر انداز و تشبیر کا فرض انجام دینے پر تم تو مامور نہ تھے لیکن خدا نے تم کو وہاں کے حالات سے بھی باخبر کیا۔ یہ اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ تم سے بھی وہی کام لے جو تم سیپہلے مبعوث ہونے والے رسولوں سے اس نے لیا۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو اس حقیقت کو نہ سمجھیں۔
Top