Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 68
وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ١ؕ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب يَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَيَخْتَارُ : اور وہ پسند کرتا ہے مَا كَانَ : نہیں ہے لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : اختیار سُبْحٰنَ اللّٰهِ : اللہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : اس سے جو وہ شریک کرتے ہیں
اور تیرا رب ہی پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اللہ پاک و برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں
فرشتوں کی ایک حیثیت یہاں یختار کے بعد بھی مایشآء بربنائے قرینہ محذوف ہے۔ یہ فرشتوں کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو بھی خدا ہی نے پیدا کیا ہے اور اگر ان کو اپنا مقرب و برگزیدہ بنایا ہے تو اسی نے بنایا ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اللہ یضطفی من الملٓئکۃ رسلاً و من الناس (الحج :75) (اللہ منتخب کرتا ہے اپنے رسول فرشتوں میں سے بھی اور لوگوں کے اندر سے بھی) مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کو جو برتری باعتبار خلق یا باعتبار تقرب حاصل ہے، وہ خدا ہی کی عطا کردہ ہے۔ اس چیز کی بنا پر ان کو یہ درجہ حاصل نہیں ہوگیا ہے کہ ان کو خدا کی خدائی میں شریک بنا دیا جائے۔ ماکان لھم الخیرۃ ان کو بذات خود کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ سبحن اللہ و تعلیٰ عما یشرکون اللہ تعالیٰ اس قسم کی تمام نسبتوں سے پاک اور برتر ہے۔ اگر کسی کو اس کے اختیارات اور اس کی صفات میں شریک بنا دیا جائے تو اس سے اس کی تمام اعلیٰ صفات کی نفی ہوجاتی ہے … یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ اوپر آیت 64 میں جن شرکاء کا ذکر آیا ہے، وہ مشرکین عرب کے مطابق، ملائکہ ہی کے زمرہ سے تعلق رکھنے والے تھے اس وجہ سے قرآن نے یہاں فرشتوں کی اصل حیثیت واضح فرما دی کہ ان کو خدا کی مخلوقات میں فی الجملہ برتری تو حاصل ہے لکنق یہ خدا داد ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ان کی ذاتی نہیں ہے۔
Top