Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 6
وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ
وَنُمَكِّنَ : اور ہم قدرت (حکومت) دیں لَهُمْ : انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں وَنُرِيَ : اور ہم دکھا دیں فِرْعَوْنَ : فرعون وَهَامٰنَ : اور ہامان وَجُنُوْدَهُمَا : اور ان کے لشکر مِنْهُمْ : ان اسے مَّا : جس چیز كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ : وہ ڈرتے تھے
اور ان کو زمین میں اقتدار عطا کریں اور فرعون و ہامان اور ان کی فوجوں کو ان کے ہاتھوں وہ دکھائیں جن کا وہ اندیشہ رکھتے تھے
بنی اسرائیل کو اقتدار دینے کا خدائی فیصلہ تمکین فی الارض سے مراد اقتدار و صولت و دبدبہ ہے۔ یعنی اراد ہالٰہی یہ ہوا کہ ان دبائے ہوئے مظلوموں کو ایک مضبوط اور طاقت ور سلطنت عطا کرے اور فرعون وہامان اور ان کی فوجوں کو وہ چیز دکھا دے جس کا وہ اندیشہ رکھتے تھے۔ ماکانوا یحذورون سے اشارہ فرعون اور اس کے البان کے اس اقتدار کی حرف ہے جس کی وضاحت ہم اس کے محل میں کرچکے ہیں کہ وہ بنی اسرائیل کی تعداد میں روز افزوں اضافہ سے بہت خائف تھے کہ اگر یہ قوت پکڑ گئے تو یا تو وہ خود ملک پر قابض ہوجائیں گے یا باہر کے دشمنوں سے مل کر یہاں سے قطبیوں کے بےدخل کردیں گے۔ اسی خطرے کے سدباب کے لئے ان احمقوں نے بنی اسرائیل کے ذکور کے قتل کی وہ اسکیم بنائی تھی جس کی پوری تفصیل ہم پچھلی سورتوں میں پیش کرچکے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی اسکیم کے مقابل میں ان کی ساری اسکیمیں اور پیش بندیاں بالکل بیکار ثابت ہوئیں۔ ارادہ الٰہی مظلوموں کے حق میں پوراہو کے رہا اور ان کے دشمن تمام زور وسطوت اور تمام تدبیر و مدبر کے باوجود پامال ہوئے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اسی حقیقت کو پیش کے اکابر و زعما کے سامنے رکھنے کے لئے وہ سرگزشت سنائی جا رہی ہے جو آگے آرہی ہے تاکہ لوگ اس قصہ کو قصہ کی حیثیت سے نہ سنیں بلکہ اس حق کو مدنظر رکھ کر سنیں جو اس کے اندر مضمر ہے۔ ہامان فرعون کا وزیر تھا یہاں بالکل پہلی مرتبہ فرعون کے ساتھ ہامان کا ذکر بھی آیا ہے اور اس طرح آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت فرعون کے وزیر کی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کو دبائے رکھنے کے مسئلہ سے خاص دلچسپی تھی۔ آگے بھی اس کا ذکر فرعون کے وزیر اعظم ہی کی حیثیت سے آ رہا ہے تو رات میں یہ نام نہیں آیا ہے لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پیدا ہوتا۔ کتنی باتیں ہیں جن میں قرآن نے تورات کے بیانات کی تصحیح کی ہے یا ان پر اضافہ کیا ہے۔ یہ بھی حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگزشت میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ بعض مستشرقین نے اس نا مکو اعتراض کا ہدف بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مصر میں اس نام کا کوئی شخص نہیں تھا۔ ان لال بجھکڑوں کا یہ اعتراض بالکل ہی احمقانہ ہے۔ کیا حضرات یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ انکو فرعون اور اس کے تمام وزراء واعیان اور اس عہد کے تمام اکابر مصر کے ناموں کی فہرست مل گئی ہے ؟ وزراء واعیان تو درکنار کیا یہ حضرات خود اس فرعون کے بارے میں متفق اللفظ ہیں جو حضرت موسیٰ کا ہم عصر تھا قرآن کی مخالفت کے جنون میں اس قسم کی باتیں جو یہ لوگ کہتے ہیں وہ بالکل ہی ناقبل التفات ہیں۔ یہ لوگ پانی ہوئی حقیقت کو گم کرنے میں تو بڑے ماہر ہیں۔ لیکن جب کسی چیز کا سراغ دیتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ٹڈے کی ٹانگ پر ہاتھی کا خول چڑھایا ہے۔ بنی اسرائیل کے اندیشہ سے فرعون کی فوجیت یاریاں یہاں فرعون وہامان کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ان کی فوجوں کا جو ذکر بار بار آیا ہے اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے۔ اس عہد کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اور اس کے اعیان نے بنی اسرائیل کے مسئلہ کو ایک بالکل سیاسی رنگ دے دیا تھا۔ ان کی کثرت تعداد کو وہ اپنی حکومت کے لئے ایک خط سمجھتے تھے اس وجہ سے فرعون نے اپنے تمام امراء و اعیان کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی فوجوں کو بنی اسرائیل کے خطرے سے نمٹنے کے لئے بالکل چوکس رکھیں۔ چناچہ جب اس نے بنی اسرائیل کے تعاقب کا فیصلہ کیا تو اپنے تمام امراء اور نوابوں کو ان کی فوجوں سمیت طلب کیا۔ فرعون کو اپنی ان افواج پر جیسا کہ قرآن اور تورات دونوں سے واضح ہوتا ہے۔ بڑا ناز تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ سارا غرور و ناز چشم زدن میں ختم کردیا۔
Top