Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 80
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا١ۚ وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ : دیا گیا تھا علم وَيْلَكُمْ : افسوس تم پر ثَوَابُ اللّٰهِ : اللہ کا ثواب خَيْرٌ : بہتر لِّمَنْ : اس کے لیے جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَ : اور عَمِلَ : اس نے عمل کیا صَالِحًا : اچھا وَلَا يُلَقّٰىهَآ : اور وہ نصیب نہیں ہوتا اِلَّا : سوائے الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے
اور جن لوگوں کو علم عطا ہوا تھا انہوں نے کہا، شامت زدہ ! ایمان اور عمل صالح والوں کے لئے خدا کا اجر اس سے کہیں بہتر ہے اور یہ حکمت صرف صابروں ہی کو عطا ہوتی ہے
قوم کے اہل دانش کا رویہ قوم میں جو لوگ علم و دانش رکھنے والے تھے انہوں نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اصل چیز مال و دولت اور اس کی نمائش نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل صالح اور اس کا اجر وثواب ہے جس کے لئے انسان کو اپنی زندگی وقف کرنی چاہئے لیکن یہ حکمت ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی، صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کے اندر دنیا کی رغبات و مطامع کے مقابل میں ایمان و عمل پر جمے رہنے کی ہمت و عزیمت ہوتی ہے۔ حقیقی علم خدا کی معرفت اور آخرت کا علم ہے اوتوا العلم میں علم سے مراد علم حقیقی ہے یعنی خدا کی معرفت اور آخرت کا علم یہی علم ہے جس سے انسان کو اصل روشنی حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہ علم کسی کو حاصل نہ ہو تو وہ تاریکی میں ہے، اگرچہ وہ دوسرے علوم میں کتنا ہی شاطر ہو۔ قارون مالیات کے فن کا بہت بڑا ماہر تھا اور اوپر واضح ہوچکا ہے کہ اس کو اس فن میں مہارت کا دعویٰ بھی تھا لیکن علم حقیقی سے وہ محروم تھا اس وجہ سے اتنی دولت رکھنے کے باوجود اس کی حیثیت ایک مار گنج سے زیادہ نہ بن سکی۔ بالکل یہی حال دوسرے علوم کا بھی ہے۔ وہ بھی انسان کے لئے نافع اسی وقت بنتے ہیں جب اس کو علم حقیقی کا نور حاصل ہو۔ اگر اس نور سے وہ محروم ہو تو ان سے وہ چالاک، کاروان اور شاطر تو بن جاتا ہے لیکن انسان نہیں بنتا اور بغیر انسان بنے چالاکی و ہوشیاری نہایت خطرناک چیز ہے۔ یہ نادان کے ہاتھ میں تلوار ہے۔ اس حقیقت کو ہمیشہ یاد رکھیے کہ جہاں تک مجرد چالاکی وہوشیاری کا تعلق ہے اس فن میں شیطان کسی سے پیچھے نہیں ہے بلکہ وہ تمام چالاکوں کا مرشد و امام ہے۔ حکمت صابروں کو حاصل ہوتی ہے ولایلقھآ الا الصبرون میں ضمیر کا مرجع وہ حکمت و موعظت ہے جس کی ان اصحاب علم نے تلقین فرمائی۔ اسی طرح ضمیر لانا عربی میں معروف ہے اور اس کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ علم حقیقی اور صبر دونوں بالکل قوام ہیں اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اصلی حکمت صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کے اندر صبر ہو۔ یعنی جو آخرت کی طلب میں اس دنیا کی بڑی سے بڑی دولت و شوکت کو قربان کرنے کی اپنے اندر ہمت رکھتے ہوں۔ جن کے اندر یہ حوصلہ اور ظرف نہ ہو وہ اس حکمت کے حامل نہیں بن سکتے۔ اس ٹکڑے کے متعلق ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ انہی اصحاب علم کے قول کا جزو ہے یا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور تضمین ان کی تحسین ہے۔ اس بارے میں ابھی جزم کے ساتھ کوئی بات میں نہیں کہہ سکتا لیکن اس طرف ذہن جاتا ضرور ہے اور قرآن میں اس کی نظیریں بھی موجود ہیں۔ اس صورت میں اس ٹکڑے کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ حکمت ان لوگوں کو اس وجہ سے عطا ہوئی کہ یہ صابرین میں سے تھے۔ قارون کی دولت و حشمت اور اس کے طمطراق سے مرعوب ہو کر پھسل جانے والے لوگ نہیں تھے۔
Top