Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 86
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّلْكٰفِرِیْنَ٘
وَمَا كُنْتَ : اور تم نہ تھے تَرْجُوْٓا : امید رکھتے اَنْ يُّلْقٰٓى : کہ اتاری جائے گی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الْكِتٰبُ : کتاب اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو تو ہرگز نہ ہوتا ظَهِيْرًا : مددگار لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
اور تم تومتوقع نہ تھے کہ تم پر کتاب اتاری جائے، یہ تو بس تمہارے رب کا فضل ہوا ہے اور تم ان کافروں کے پشت پناہ نہ بنو
جو ذمہ داری بندے پر خدا ڈالتا ہے وہ اس میں اس کی مدد فرماتا ہے۔ یہ اوپر والے مضمون ہی کی مزید وضاحت ہے کہ تم نے یہ کتاب اپنے اوپر خدا سے ماگن کر تو اتروائی نہیں ہے کہ اس کی ساری ذمہ داری خدا تم پر ڈال کر اس سے بےتعلق ہوجائے۔ یہ تو تمہارے رب کی رحمت ہے جو اس نے تم پر تمہاری طلب و تمنا کے بغیر، نازل فرمائی ہے تو جس کام کے لئے اس نے تمہیں خود منتخب فرمایا ہے وہی اس کے حقوق وفرائض سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ہر گام پر تمہاری رہنمائی بھی فرمائے گا اور چونکہ یہ رحمت ہے، کوئی زحمت نہیں ہے اس وجہ سے بہرحال اس کا انجام تمہارے حق میں بھی اور ان لوگوں کے حق میں بھی جو اس کو قبول کریں گے، رحمت ہی کا باعث ہوگا۔ اگر ناشکرے لوگ اس کی ناقدری کر رہے ہیں تو وہ اپنی ہی کو خدا کی رحمت سے محروم کر رہے ہیں۔ قریش کو بالواسطہ تنبیہ فلاتزنن ظھیراً …یہ خطاب اگرچہ ظاہر الفاظ کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ سے ہے لیکن اس میں ہو تنبیہ و عتاب مضمر ہے اس کا رخ مکذبین قرآن کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو چیز تمہیں خدا کی طرف سے ملی ہے اس کو بےکم وکاست لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر وہ تمہیں کچھ دبانا اور نرم کرنا چاہتے ہیں تو تم اس میں کسی تبدیلی یا مداہنت کے مجاز نہیں ہو۔ تم خدا کے آگے مسئول ہو، ان کے آگے مسئول نہیں ہو۔ اگر ان کی خاطر سے تم نے کوئی مداہنت کی تو تم مجرموں کے مددگار اور پشت پناہ بن جائو گے۔ یہ قریش کے لیڈروں کو سنا کر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو متنبہ کردیا تاکہ اگر وہ اپنے دل کے کسی گوشے میں یہ امید دبانے بیٹھے ہوں کہ ان مخالفتوں سے وہ آنحضرت ﷺ کو کچھ نرم کرلیں گے تو اس سے آخری درجے میں مایوس ہوجائیں۔ اس آیت سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ نبوت و رسالت ایک موبیت ربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی جس کو چاہتا ہے اس کار خاص کے لئے منتخب فرماتا ہے اور وہی جس کو منتخب فرماتا ہے اس کی تربیت فرماتا ہے۔ نبی کو یہ منصب بغیر کسی طلب و تمنا اور کسی انتظار و توقع کے ملتا ہے اور خدا ہی اس منصب کی ذمہ داریوں کے ادا کنے میں اس کی مدد فرماتا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ انسانی فطرت کی مضمر صلاحیتوں ہی کا ایک بروز ہے ان کا خیال بالکل غلط ہے … انشاء اللہ اس مسئلہ پر تفصیلی بحث آخری گروپ کی سورتوں میں آئے گی۔ جو عہدہ اور بغیر کسی تمنا کے کسی کو دیا ہے اس میں وہ اس کی ملائمہ فرماتا ہے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آدمی پر اگر کسی منصب و عہدہ کی ذمہ داریاں اس کی طلب و تمنا کے بغیر عائد ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس میں اس کی مدد فرماتا ہے اور اگر وہ کسی عہدہ کا طالب بن کر اس کو حاصل کرتا ہے تو خدا اس کو اس کے عہدہ کے حوالے کردیتا ہے۔ اس بات کی وضاحت احادیث میں بھی نہایت مئوثر انداز میں ہوئی ہے۔ قرآن کے معاملہ میں مداہنت کرنے والا مجرموں کا ساتھی ہے تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کے معاملے میں ہمیں ہرگز کسی نرمی و مداہنت کو گوارا نہیں کرنا چاہئے اگر ہم ایسا کریں گیت و ہم برموں کے ساتھی اور ان کی مددگار بن جائیں گے۔
Top