Tadabbur-e-Quran - Al-Ankaboot : 28
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ١٘ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : (یاد کرو) جب قَالَ : اس نے کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم کو اِنَّكُمْ : بیشک لَتَاْتُوْنَ : تم کرتے ہو الْفَاحِشَةَ : بےحیائی مَا سَبَقَكُمْ : نہیں پہلے کیا تم نے بِهَا : اس کو مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اور لوط کو بھی ہم نے رسول بنایا۔ جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ ایک کھلی ہوئی بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو۔ تم سے پہلے دنیا میں کسی قوم نے بھی اس کا ارتکاب نہیں کیا !
ولوطا از قال لقومہ انکم لتاتون الفاشۃ ز ما سبقکم بھا من احد من العلمین (28) حضرت لوط ؑ ، اوپر گزر چکا ہے، حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے، ان کی دعوت کا علاقہ اگرچہ الگ تھا لیکن ایک زمانہ ایک ہی تھا۔ ان کی قوم میں یوں تو وہ ساری ہی برائیاں تھیں جو دوسری مشرک قوموں میں رہی ہیں لیکن مرد برستی کی بےحیائی اس قو میں فیشن کی حیثیت حاصل کرگئی تھی اس وجہ سے اس کی اصلاح پر ان کو خاص طور پر توجہ مرکوز کرنی پڑی۔ لفظ فاحشۃ سے انہوں نے اسی بےحیائی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ فاحشۃ کھلی ہوئی بدکاری و بےحیائی کو کہتے ہیں جس کے بدکاری و بےحیائی ہونے میں کسی اختلاف کی گنجائش نہ ہو۔ لتاتون الفاحشۃ کے الفاظ سے حضرت لوط ؑ نے لوگوں کی اخلاق حس بیدار کرنے کی کوشش کی اور اس کے ساتھ ان کو غیرت دلائی کہ یہ تو بےحیائی ہے جو سب سے پہلے اس روئے زمین پر تمہی نے ایک فیشن کی حیثیت سے اختیار کی ہے، تم سے پہلے کسی قوم نے بھی یہ لعنت ایک قومی تہذیب کی حیثیت سے اختیار نہیں کی۔ ہم دوسرے مقام میں یہ وضاحت کر چکتے ہیں کہ ماسبقکم بھا من احد من العلمین سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ قوم لوط سے پہلے دنیا میں کسی ایک فرد نے بھی اس بسائی کا ارتکاب نہ کیا ہو۔ لفظ احد جمع کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ اس کی مثالیں ہم پیش کرچکے ہیں اس وجہ سے اس کا صحیح مفہوم یہی ہے کہ تم سے پہلے کسی قوم نے بھی اس بےحیائی کو من حیث القوم اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا۔ اس برائی کا یہی وہ پہلو ہے جس کے سبب سے پوری قوم لوط عذاب کی مستحق ٹھہری۔
Top