Tadabbur-e-Quran - Al-Ankaboot : 43
وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ١ۚ وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ
وَتِلْكَ : اور یہ الْاَمْثَالُ : مثالیں نَضْرِبُهَا : ہم وہ بیان کرتے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَمَا يَعْقِلُهَآ : اور نہیں سمجھتے نہیں اِلَّا : سوا الْعٰلِمُوْنَ : جاننے والے
اور یہ تمثیلیں ہیں جن کو ہم لوگوں کے غور کرنے کے لئے بیان کرتے ہیں لیکن ان کو صرف اہل علم ہی سمجھتے ہیں۔
وتلک الامثال نضر بھا للناس ج وما یعقلھا الا العلمون (43) ’ امثال ‘ سے اشارہ ان تمام امثال و واقعات کی طرف ہے جو اوپر مذکور ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ یہ مثالیں ہم جو بیان کر رہے ہیں اس سے مقصود داستان سرائی نہیں ہے۔ ہم یہ اس لئے پیش کر رہے ہیں کہ لوگ ان پر غور کریں اور خود اپنی زندگیوں کے لئے ان سے سبق حاصل کریں۔ کوئی مثال جب کسی کے سامنے رکھی جاتی ہے تو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر اس کو خود اس کا ماضی و مستقبل دکھا دیا جائے۔ لیکن دوسروں کی مثال سے خود اپنے لئے سبق حاصل کرنا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔ یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جن کے اندر عقل و علم کی روشنی موجود ہو۔ یہاں ’ عالمون ‘ سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی فطری صلاحیتیں زندہ اور جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ ہر واقعہ سے سبق حاصل کرتے ہیں جس سے درجہ بدرجہ ان کے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ برعکس اس کے جن کے اندر سبق آموزی و عبرت پذیری کی صلاحیت مردہ ہوجاتی ہے اور اول تو اس طرح کی چیزوں کی طرف دھیان ہی نہیں کرتے اس لئے کہ اس سے ان کی بےفکری میں خلل پڑتا ہے اور اگر کچھ توجہ کرتے بھی ہیں تو اس میں اپنے لئے کوئی درس تلاش نہیں کرتے بلکہ اس کو محض قصہ ماضی سمجھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی اصلطاح میں اصلی عام وہ لوگ نہیں ہیں جو اپنے اوپر کتابوں کا بوجھ لادے ہوئے ہیں بلکہ عالم وہ ہیں جو آفاق وانفس کی نشانیوں پر غور کرنے والے اور ان سے صحیح سبق حاصل کرنے والے ہیں۔
Top