Tadabbur-e-Quran - Al-Ankaboot : 48
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ
وَمَا : اور نہ كُنْتَ تَتْلُوْا : آپ پڑھتے تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنْ كِتٰبٍ : کوئی کتاب وَّلَا تَخُطُّهٗ : اور نہ اسے لکھتے تھے بِيَمِيْنِكَ : اپنے دائیں ہاتھ سے اِذًا : اس (صورت) میں لَّارْتَابَ : البتہ شک کرتے الْمُبْطِلُوْنَ : حق ناشناس
اور تم تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اس کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ ایسا ہوتا تو یہ جھٹلانے والے میں میکھ نکالتے۔
وما کنت تتلوا من قبلہ من کتب ولا تخطہ بیمینک اذا لارتاب المبطلون (48) یہ اہل کتاب کو توجہ دلائی گی ہے کہ اگر وہ ضد اور انانیت سے کام نہ لیں تو تمہاری رسالت کی یہ دلیل ان کے لئے کافی ہے کہ ایک شخص جس نے نہ آسمانی صحیفوں میں سے کوئی صحیفہ پڑھا اور نہ جو لکھنے کے فن سے واقف ہے آخر اس کے اوپر یہ تمام علوم کہاں سے برس پڑے کہ اس نے نہ صرف تمام نبیوں کی تعلیم کو ازسر نو زندی کردیا بلکہ جو کسر انہوں نے چھوڑی تھی وہ بھی اس نے پوری کردی۔ آنحضرت ﷺ کی رسالت کی یہ دلیل ہوں تو سب پر حجت ہے لیکن اہل کتاب پر یہ خاص طور پر حجت ہے اس لئے کہ وہ انبیاء سابقین کی تمام شریعت و حکتم کے وارث تھے۔ انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ حضرت نوح ؑ و حضرت ابراہیم ؑ سے لے کر حضرت موسیٰ و حضرت مسیح ؑ تک کے سارے خزائنِ حکتم ایک امّی پر کس طرح نازل ہوگئے۔ ’ اذ لارتاب المبطلون۔ ‘ یعنی اگر تم پڑھے لکھے ہوتے تب تو یہ جھٹلانے والے لوگ کوئی نہ کوئی لا یعنی بات شک پیدا کرنے والی بنا سکتے تھے۔ بصورتِ موجودہ ان کے لئے کوئی بات بتانے کا موقع تو ہے نہیں لیکن اب بھی اگر وہ شکوک پیدا کرتے ہیں تو ان کی شامت ہی ہے۔
Top