Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق تُقٰتِھٖ : اس سے ڈرنا وَلَا تَمُوْتُنَّ : اور تم ہرگز نہ مرنا اِلَّا : مگر وَاَنْتُمْ : اور تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان (جمع)
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرو تم مگر اس حال میں کہ تم اسلام پر ہو۔
اعتصام باللہ کی حقیقت : یہ اعتصام باللہ کی حقیقت واضح فرما دی کہ اللہ کو مضبوط پکڑنے کے معنی یہ ہیں کہ اس سے اس طرح ڈرتے رہو جس طرح اس سے ڈرتے رہنے کا حق ہے۔ یہ تقوی اگرچہ مطلوب تو اسی حد تک ہے جس حد تک بندے کی استطاعت میں ہے، اس کی وضاحت خود قرآن ہی نے فرما دی ہے کہ ”فاتقوا اللہ ما استطعتم“ (تغابن :16) لیکن خدا سے ڈرتے رہنے کا حق ہے۔ اول تو بندے پر خدا کے جو حقوق ہیں وہ کسی اور کے نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ خدا نے جو حدود وقیوم قائم کیے ہیں اور ان کے توڑنے کی جو سزا مقر کی ہے وہ تمام تر بندوں کی دنیوی و اخروی بہبود کے لیے کی ہے، ان کی پابندی سے خدا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ بندوں ہی کو پہنچتا ہے۔ تیسری یہ کہ خدا کی آنکھیں ہر جگہ نگراں ہیں یہاں تک کہ وہ دلوں کے وسوسوں سے بھی باخبر ہے۔ چوتھی یہ کہ خدا کی پکڑ سے کوئی دوسرا بچا نہیں سکتا اور دنیا اور آخرت دونوں میں سزا دے سکتا ہے اور ہمیشہ کے لیے دے سکتا ہے۔ خدا سے ڈرنے میں جب تک بندہ ان تمام پہلوؤں کو مد نظر نہ رکھے وہ خدا سے ڈرنے کا صحیح مفہوم سمجھ بھی نہیں سکتا چہ جائیکہ وہ اس کا صحیح حق ادا کرپائے۔ بہت سے لوگ جو انسانوں سے ڈر کر خدا اور اس کی شریعت کو چھوڑ بیٹھتے ہیں ان کی بنیادی گمراہی یہی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی مخالفت اور خدا کے غضب میں فرق نہیں کرپاتے۔ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ میں یہ لطیف حقیقت واضح فرمائی ہے کہ خدا سے یہ ڈرنا صرف عارضی اور وقتی طور پر مطلوب نہیں ہے بلکہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اسی پر جینا اور اسی پر مرنا ہے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے یہ جدو جہد شروع ہوتی اور زندگی کی آخری سانس پر تمام ہوتی ہے۔ اگر آخری مرحلے میں بھی یہ تسلسل کہیں ٹوٹ گیا تو ساری عمر کی محنت برباد گئی۔ آیت کے اسلوب میں یہ بات بھی مخفی ہے کہ یہ راہ بہت ہموار نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سے نشیب و فراز اور ہر قدم پر اتار چڑھاؤ ہیں۔ اس میں آزمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا ہوگا اور شیاطین کے شب خونوں اور معاندین کی دراندازیوں اور فساد انگیزیوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ کبھی طمع ورغلانے کے لیے عشوہ گری کرے گی۔ کبھی خوف دھمکانے کے لیے اپنے اسلحہ سنبھالے گا۔ جو ان سب مرحلوں سے اپنا ایمان واسلام بچاتا ہوا منزل پر پہنچا اور اسی حال میں اس نے جان، جان آفرین کے سپرد کی درحقیقت وہ ہے جو خدا سے اس طرح ڈرا جس طرح خدا سے ڈرنے کا حق ہے اور یہی ہے جس کو اعتصام باللہ کا مقام حاصل ہوا۔
Top